بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

من تشاء اور وریشہ نام نہ رکھا جائے


سوال

’’منتشا‘‘  اور ’’وریشہ‘‘  نام کا مطلب کیا ہے؟ اور اسے نام کے طور پر رکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچوں کا نام ان کی شخصیت کی پہچان ہوتا ہے(۱) اور بچوں کے اچھے نام رکھنا شریعت میں مطلوب ہے (۲)اور اچھے ناموں سے مراد یہ ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا  صالحین میں سے کسی کا نام ہو یا اچھے معنی پر مشتمل نام ہو(۳)۔اور  اگر غیر اللہ کی طرف بندگی کی نسبت پر مشتمل نام ہو تو ایسا نام رکھنا حرام ہے اور اگر برے معنی پر مشتمل نام ہو تو ایسا نام رکھنا حسبِ معنی حرام یا مکروہ ہے(۴)۔ اور اگر  بے معنی نام ہو یا ایسا نام ہو جس کا معنی تو ہو لیکن وہ معنی شخصیت کو بیان نہ کرتا ہو تو ایسے ناموں کا نہ رکھنا بہتر ہے(۵)۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سائل کے سوال کا جواب یہ ہے   ’’منتشا‘‘  عربی و اردو لغت کے اعتبار سے کوئی لفظ نہیں ہے، البتہ عربی زبان میں ’’مَنْ‘‘ اور  ’’تَشَاء‘‘ دو الگ الگ الفاظ ہیں، جن کو ملاکر پڑھا جائے تو ’’من تشاء‘‘ بنے گا اور اس کا مطلب ہے ’’جس کو تو چاہے‘‘ ۔ ممکن ہے کہ کسی نے قرآنِ مجید کی آیت : {وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ} سے یہ لفظ اخذ کرکے اسے نام کے طور پر پیش کردیا ہو، لیکن آیتِ مبارکہ کے مکمل جملے میں سے دو کلمات پر مشتمل یہ لفظ معنیٰ کے اعتبار سے ناقص  اور بے معنی ہے، لہٰذا ’’من تشاء‘‘  نام رکھنے کے لیے موزوں نہیں ہے، یہ کسی کا نام نہ رکھا جائے۔

’’وریشه‘‘  بھی اردو و عربی زبان میں بے معنی لفظ ہے،  لہٰذا ’’وریشہ‘‘  نام رکھنا درست نہیں ہے، کیوں کہ لغتِ عرب میں یہ لفظ  موجود  نہیں، بظاہر یہ نام قرآنِ کریم کی آیت  {یٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباسًا يُوارِي سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيشًا} سے لیا گیا ہے، جس کا ترجمہ ہے:" اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری پردہ داریوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجبِ  زینت بھی ہے" ۔(بیان القرآن)  اس میں" واو" بمعنی "اور" ایک کلمہ ہے اور "رِيشًا" بمعنی "زیبب و زینت"دوسرا کلمہ ہے، دونوں کو ملا کر ایک نام بنادیا گیا ہے ۔

اسے لفظ "وروش" سے صفتِ مشبہ بھی نہیں کہا جاسکتا؛ کیوں کہ عرب "وروش" سے صفت مشبہ " فعیل" کے وزن پر نہیں استعمال کرتے ، نیز "وروش" اور "ورش" کا معنی  نام رکھنے کے لیے مناسب نہیں ہے۔اگرصرف "ریش" نام رکھتے ہیں تو  یہ فارسی لفظ ہے اور اسے داڑھی کے معنی میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔

الغرض یہ نام چھوڑ کر صحابیات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کے نام پر یا اچھے معنیٰ والا کوئی دوسرانام رکھ لیاجائے۔ فقط واللہ اعلم

حوالہ جات:

(۱) "فَنَقُول فِي بَيَان حد الِاسْم وَحَقِيقَته: إِن للأشياء وجوداً فِي الْأَعْيَان ووجوداً فِي الأذهان ووجوداً فِي اللِّسَان.

أما الْوُجُود فِي الْأَعْيَان فَهُوَ الْوُجُود الْأَصْلِيّ الْحَقِيقِيّ، والوجود فِي الأذهان هُوَ الْوُجُود العلمي الصُّورِي، والوجود فِي اللِّسَان هُوَ الْوُجُود اللَّفْظِيّ الدليلي … فَإِذا عرفت هَذَا فدع عَنْك الْآن الْوُجُود الَّذِي فِي الْأَعْيَان والأذهان، وَانْظُر فِي الْوُجُود اللَّفْظِيّ فَإِن غرضنا يتَعَلَّق بِهِ، فَنَقُول: الْأَلْفَاظ عبارَة عَن الْحُرُوف الْمُقطعَة الْمَوْضُوعَة بِالِاخْتِيَارِ الإنساني للدلالة على أَعْيَان الْأَشْيَاء … أَن الِاسْم إِنَّمَا يعْنى بِهِ اللَّفْظ الْمَوْضُوع للدلالة". (المقصد الأسنى للغزالی، ۱/ ۲۵ الجفان والجابي)

(۲) "(وغراب): لأن معناه البعد؛ ولأنه أخبث الطيور لوقوعه على الجيف وبحثه عن النجاسات. وقال شارح: لأن الغراب طير مذموم شرعاً، أو لأنه من الغروب وهو غير مستحسن في التفاؤل، يعني: وكان صلى الله عليه وسلم يحب الاسم الحسن والفأل الحسن". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، ۷/ ۳۰۰۷، دار الفکر)

"فألاخلاق والأعمال والأفعال القبيحة تستدعي أسماء تناسبها، وأضدادها تستدعي أسماء تناسبها، وكما أن ذلك ثابت في أسماء الأوصاف فهو كذلك في أسماء الأعلام، وما سمي رسول الله صلى الله عليه وسلم محمداً وأحمد إلا لكثرة خصال الحمد فيه، ولهذا كان لواء الحمد بيده، وأمته الحمادون، وهو أعظم الخلق حمداً لربه تعالى، ولهذا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بتحسين الأسماء، فقال: حسنوا أسماءكم فإن صاحب الاسم الحسن قد يستحي من اسمه، وقد يحمله اسمه على فعل ما يناسبه وترك ما يضاده، ولهذى ترى أكثر السفل أسماؤهم تناسبهم وأكثر العلية أسماؤهم تناسبهم، وبالله التوفيق". (تحفة المودود بأحكام المولود، ۱/ ۱۴۷، مكتبة دار البيان – دمشق)

"وَإِذا أردْت أَن تعرف تَأْثِير الْأَسْمَاء فِي مسمياتها فَتَأمل حَدِيث سعيد بن الْمسيب عَن أَبِيه عَن جده قَالَ: أتيت إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فَقَالَ: مَا اسْمك؟ قلت: حزن، فَقَالَ: أَنْت سهل، قَالَ لَا أغير اسْماً سمّانيه أبي، قَالَ ابْن الْمسيب: فَمَا زَالَت تِلْكَ الحزونة فِينَا بعد". (تحفة المودود بأحكام المولود، ۱/ ۱۲۱، مكتبة دار البيان – دمشق)

(۳) "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تسموا بأسماء الأنبياء…"الخ ( سنن أبي داود، ۴/ ۲۸۸، المكتبة العصرية)

"عن المغيرة بن شعبة، قال: لما قدمت نجران سألوني، فقالوا: إنكم تقرءون يا أخت هارون، وموسى قبل عيسى بكذا وكذا، فلما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم سألته عن ذلك، فقال: «إنهم كانوا يسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم»". (شرح النووي على مسلم، ۱۴/ ۱۱۷، دار إحياء التراث العربي)

(۴) في شرح مسلم للنووي: "قال أصحابنا: يكره التسمي بالأسماء المذكورة في الحديث، وما في معناها وهي كراهة تنزيه لا تحريم، والعلة فيه ما نبه صلى الله عليه وسلم بقوله: أثم هو؟ فيقول: لا، فكره لشناعة الجواب". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ۷/ ۲۹۹۷، دار الفکر)

" أما الْمَكْرُوه مِنْهَا وَالْمحرم فَقَالَ أَبُو مُحَمَّد بن حزم: اتَّفقُوا على تَحْرِيم كل اسْم معبد لغير الله…من الْمحرم التَّسْمِيَة بِملك الْمُلُوك وسلطان السلاطين وشاهنشاه…وَمِنْهَا: التَّسْمِيَة بأسماء الشَّيَاطِين كخنزب والولهان والأعور والأجدع…وَمِنْهَا: أَسمَاء الفراعنة والجبابرة كفرعون وَقَارُون وهامان". (تحفة المودود بأحكام المولود، ۱/ ۱۱۳ تا ۱۱۸، مكتبة دار البيان – دمشق)

(۵) "وفي «الفتاوى»: التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في كتابه ولا ذكره رسول الله عليه السلام، ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لاتفعل". (المحيط البرهاني في الفقه النعماني، ۵/ ۳۸۲، دار الكتب العلمية)

"ولايلزم من ترك المستحب ثبوت الكراهة، إذ لا بد لها من دليل خاص". (فتاوی شامی، ۱/۱۲۴، سعید) 


فتوی نمبر : 144010200536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں