بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ممتدۃ الطہر کی عدت


سوال

اگر کسی عورت کو حیض کا مسئلہ ہو،  یعنی لگاتار  حیض 2 ماہ سے جاری رہے جس کا علاج بھی ہو رہا ہو،  پھر بالکل رک جائے اور نہ آ رہا ہو تو ایسی عورت کی عدتِ  طلاق کیا ہوگی؟

جواب

اولاً تو مذکورہ عورت کو  چاہیے کہ اپنا علاج کرائے؛  تاکہ حیض معمول کے مطابق شروع ہوجائے، اگر علاج سے افاقہ ہو اور حیض شروع ہوجائے تو چوں کہ دو ماہ لگاتار خون جاری رہنے کی وجہ سے ہر مہینے کے دس دن حیض تھے اور بقیہ ایام استحاضہ تھے،  اس  لیے ایک اور حیض گزرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی ۔  یہ حکم اس صورت میں ہے کہ عورت کو طلاق حیض شروع ہونے سے پہلے دی گئی ہو .

 اور اگر علاج کے باوجود چھ ماہ تک حیض شروع نہ ہو تو اس عورت کی عدت ایک سال ہوگی، یعنی جب سے خون رکا ہے،  اس وقت سے ایک سال مکمل ہوتے ہی عدت پوری ہوجائے گی، اور اگر سال مکمل ہونے سے پہلے حیض شروع ہوگیا تو ایک اورحیض مکمل ہوتے ہی عدت پوری ہوجائے گی۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار  (3 / 509):
"لكن قد علمت أن المعتمد عند المالكية تقدير المدة بحول ونقله أيضاً في البحر عن المجمع معزياً لمالك ... قلت: لكن هذا ظاهر إذا أمكن قضاء مالكي به أو تحكيمه أما في بلاد لايوجد فيها مالكي يحكم به فالضروة متحققة، وكأن هذا وجه ما مر عن البزازية والفصولين".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (11 / 48):
"وفي التتارخانية: امرأة بلغت فرأت يوماً دماً ثم انقطع عنها الدم حتى مضت سنة ثم طلقها زوجها فعدتها بالأشهر ا هـ . وخرج بقوله: إن لم تحض الشابة الممتد طهرها فلاتعتد بالأشهر وصورتها إذا رأت ثلاثة أيام وانقطع ومضى سنة أو أكثر ثم طلقت فعدتها بالحيض إلى أن تبلغ إلى حد الإياس وهو خمس وخمسون سنة في المختار، كذا في البزازية. ومن الغريب ما في البزازية: قال العلامة: والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة ا هـ .ولو قضى قاض بانقضاء عدة الممتد طهرها بعد مضي تسعة أشهر نفذ كما في جامع الفصولين. ونقل في المجمع: أن مالكاً يقول: إن عدتها تنقضي بمضي حول. وفي شرح المنظومة: أن عدة الممتد طهرها تنقضيبتسعة أشهر، كما في الذخيرة معزياً إلى حيض منهاج الشريعة. ونقل مثله عن ابن عمر، قال: وهذه المسألة يجب حفظها؛ لأنها كثيرة الوقوع. وذكر الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون بقول مالك في هذه المسألة للضرورة خصوصاً الإمام والدي ا هـ" .
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں