بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے پورے وقت میں حاضر نہ ہو تو تنخواہ کا حکم


سوال

ایک بندہ سرکاری نوکری کرتا ہے، یعنی ماسٹر ہے،  روز ڈیوٹی پے جاتا ہے پابند ہے،  لیکن اس کا اسکول اس کے گھر سے دور ہے،  آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے سواری پر بھی  پہنچنےمیں۔ مطلب روز آدھا گھنٹہ لیٹ ہوجاتا ہے  تو اس کا ہیڈ ماسٹر کہتا ہے کہ جتنا ٹائم لیٹ کرتے ہو ، اتنا حرام کھاتے ہو . مطلب اتنی تنخواہ حرام ہو جاتی ہے،  آپ لوگوں کی جتنا لیٹ کرتے ہو . جب کے وہ روز سواری پر جاتے ہیں، کرایہ بھی اپنی جیب سے دیتا ہے،  نہ کہ اسکول سے ملتا ہے. اگر پیدل جائیں تو  دو یا تین گھنٹے لگ جائیں۔ اب آپ راہ نمائی فرمائیں کہ اتنی تنخوا حرام ہو جاۓگی یا نہیں جتنی ان کو لیٹ ہو جاتی ہے ؟

جواب

اگر "مخصوص وقت" میں کام کرنے پر ملازم رکھا ہو تو جس وقت میں غیر حاضر ہوگا، اس وقت کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا۔اس لیے وقت پر پہنچنا لازم ہے۔

النتف في الفتاوى للسغدي (2 / 559):
"فان وقعت على عمل معلوم فلاتجب الأجرة إلا بإتمام العمل إذا كان العمل مما لايصلح أوله إلا بآخره وإن كان يصلح أوله دون آخره فتجب الأجرة بمقدار ما عمل.
وإذا وقعت على وقت معلوم فتجب الأجرة بمضي الوقت إن هو استعمله أو لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الأجرة". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں