بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے اوقات میں نوافل کی ادائیگی کا حکم


سوال

ملازمت کے اوقات میں نماز کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟ نیز نماز کے وقفے والے اوقات کے علاوہ نماز ادا کرنا جائز ہے؟  کیانماز قبول ہو گی یا نہیں؟

جواب

ملازمت کے جو اوقات باہمی معاہدہ میں طے ہوجائیں ان اوقات میں ملازم کے لیے نماز کی ادائیگی لیے صرف اتنی دیر پہلے مسجد جانا چاہیے جس میں استنجا اور وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر اعتدال کے ساتھ سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ جماعت سے نماز مل سکے۔ اگر وضو وغیرہ کا تقاضا نہ ہو تو اذان ہوتے ہی جانا ٹھیک نہیں، بلکہ جماعت سے اتنا پہلے چلے جائیں جس میں سنتِ مؤکدہ اعتدال سے ادا کرکے جماعت میں شامل ہوسکیں۔ جن نمازوں میں فرض سے پہلے سننِ مؤکدہ نہیں ہیں (عصر، مغرب اور عشاء)، ان میں اگر پہلے سے باوضو ہوں تو اس طرح جائیں کہ تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائیں۔اور جن نمازوں کے بعد سنتِ مؤکدہ ہیں(ظہر، مغرب اور عشاء) ان میں نماز کے بعد سنتِ مؤکدہ ادا کرنے کی اجازت ہے، اور جس نماز کے بعد سنتِ مؤکدہ نہیں ہے اس کے بعد دعا مانگ کر فوراً دفتر آنا چاہیے، باقی اذکار اور تسبیحات راستے میں پڑھ لیا کریں، یا اگر دفتری کام میں مخل نہ ہو تو دفتر پہنچ کر بھی وہ تسبیحات پوری کی جاسکتی ہیں۔

ملازمت کے اوقات میں فقہاء نے نوافل کی ادائیگی سے منع کیا ہے، البتہ اگر ادارے کی جانب سے اس کی اجازت ہو اور ملازمت میں مفوضہ امور کی سرانجام دہی میں کوئی خلل نہ پڑتاہو تو اوقاتِ ملازمت میں فرض نماز کے علاوہ بھی نماز کی ادائیگی درست ہوگی۔اور اگر فرض نمازوں کے اوقات میں ملازم کو مذکورہ تفصیل کے مطابق نماز کی ادائیگی کی اجازت ہو اور نوافل کی ادائیگی کی اجازت نہ ہو تو ملازم کے لیے دفتری اوقات میں نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ ادا کیے گیے نوافل کراہت کے ساتھ ادا ہوجائیں گے۔ اور اگر نوافل اتنی مقدار یا اتنے وقت میں  پڑھے کہ مفوضہ امور کی ذمہ داری میں خلل پیدا ہو تو  اس کے بقدر آمدن حلال نہیں ہوگی۔

     فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، وعليه الفتوى".(6/70،  کتاب الإجارة، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں