بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کی وجہ سے ترکِ نماز کا حکم


سوال

میں روٹی کی دکان میں کام کرتا ہوں ،میری دکان کا مالک نماز کے لیے نہیں چھوڑتا ہے، وہ کہتا ہے کہ نماز تم اپنے لیے پڑھتے ہو، میرے کام کو اس  میں مت لاؤ، اور میری مجبوری ہے کہ اور بھی کام نہیں کرسکتا ہوں، آپ بتائیں میں کیا کروں؟

جواب

ہر مسلمان عاقل پر پانچوں وقت نماز ادا کرنا فرضِ عین ہے، اور ان نمازوں کا بالکل ترک کردینا یا وقتِ مقررہ پر ادا نہ کرنا یابلاعذر جماعت کا چھوڑدیناشدید گناہ ہے، اور ملازمت ایسا عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے نماز معاف ہوجائے،یاجماعت کو ترک کردیا جائے۔

نیزمالک کے لیے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ ملازم کو فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرے، اور نماز کے ترک کرنے میں مالک کی بات مانناجائز نہیں ہے۔لہذا مالک سے بات چیت کرکے اسے نماز کی اجازت پر آمادہ کیاجائے اور فرض نماز اور سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی کا وقت طلب کیاجائے، یا اسے کہہ دیاجائے کہ جتنا وقت نماز میں صرف ہوتاہے اتنے وقت کو ملازمت کے وقت سے منہاکردیں اور جو وقت ملازمت میں خرچ ہوتاہے اس کی تنخواہ مقررکردے۔اور اگر مالک کسی صورت نماز کی اجازت دینے پر راضی نہ ہو تو ایسے شخص کے ہاں ملازمت جائز نہیں،مذکورہ ملازمت کے بجائے دوسری جگہ معاش کا ذریعہ تلاش کرنالازم ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں