بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کا وقت طے کرنا ضروری ہے، ملازم کو کتنی دیر پہلے نماز کے لیے دفتر سے نکلنا چاہیے اور کتنی دیر نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا چاہیے؟


سوال

’’ماشاء الله لا قوة إلا بالله‘‘ نوکری ملی ہے،  یہاں کا ماحول کچھ ڈھیلا ہے، یعنی آفشل وقت صبح ۱۰-۱۰:۳۰ کے درمیان سے رات ۷:۳۰-۸ کے درمیان تک بتایا گیا ہے:

(۱)کیا اس طرح کام کے اوقات مقرر کرنے پر میرے اجارہ کے معاملہ میں کوئی گناہ ہے؟ مشاہدہ ہوا ہے کہ باقی اسٹاف ایک وقت نہیں آتا، بعض مذکورہ اوقات کی رینج سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں۔

(۲)مسجد بہت قریب ہے تو اذان ہوتے ہی نکلنے کی تیاری کروں  یا بس جتنی دیر لگنی ہے، اس جتنے وقت کا جماعت کے وقت تک سے پہلے دفتر کا کام کروں؟

(۳) مسنون اذکار اور تسبیحات پڑھ کے جاؤں یا فوراً دفتر واپسی پہنچنے کے لیے روانہ ہوں ؟

(۴)چوں کہ اتنی دیر بیٹھنے اور کام کرنے کی عادت نہیں تو  اخیر وقت میں سستی اور بے زاری ہونے لگتی ہے، جس سے کام اتنا نہیں ہو پاتا  تو کیا میری کمائی طیب رہے گی؟

جواب

۱)معاہدہ میں کام کے اوقات حتمی طور پر طے کرنے چاہییں، اگر یوں طے کیا جائے کے کام کا وقت صبح دس بجے سے لے کر رات آٹھ بجے تک ہے، پھر کبھی کام ختم ہونے کی وجہ سے وہ لوگ آپ کو سات یا ساڑھے سات بجے چھٹی دے دیا کریں تو اس طرح ٹھیک رہے گا، لیکن ایک معین وقت معاہدہ میں طے ہونا چاہیے۔

۲)نماز کے لیے صرف اتنی دیر پہلے مسجد جانا چاہیے جس میں استنجا اور وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ جماعت سے نماز مل سکے، اگر وضو وغیرہ کا تقاضا نہ ہو تو اذان ہوتے ہی جانا ٹھیک نہیں، بلکہ جماعت سے اتنا پہلے چلے جائیں جس میں سنتِ مؤکدہ اعتدال سے ادا کرکے جماعت میں شامل ہوسکیں۔ جن نمازوں میں فرض سے پہلے سننِ مؤکدہ نہیں ہیں (عصر، مغرب اور عشاء) ان میں اگر پہلے سے باوضو ہوں تو اس طرح جائیں کہ تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائیں۔

۳) جن نمازوں کے بعد سنتِ مؤکدہ ہیں(ظہر، مغرب اور عشاء) ان میں نماز کے بعد سنتِ مؤکدہ ادا کرنے کی اجازت ہے، اور جس نماز کے بعد سنتِ مؤکدہ نہیں ہے اس کے بعد دعا مانگ کر فوراً دفتر آنا چاہیے، باقی اذکار اور تسبیحات راستے میں پڑھ لیا کریں، یا اگر دفتری کام میں مخل نہ ہو تو دفتر پہنچ کر بھی وہ تسبیحات پوری کی جاسکتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ دفتر والوں کی طرف سے جتنی دیر ٹھہرنے کی اجازت ہو اس سے زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے۔

۴)جتنا آپ کے بس میں ہو اتنا کام کریں، باقی کام زیادہ ہونے کی وجہ سے جو فطری تھکاوٹ ہو، اس کی وجہ سے اگر معمول سے کچھ کم کام ہو تو اس کی وجہ سے کمائی حلال طیب ہونے سے نہیں نکلتی ہے، البتہ جان بوجھ کر سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کام چوری سے کام نہیں لینا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں