بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کی زمین سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے


سوال

ایک آدمی دوسرے سے قرض لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تک میں پیسے نہ دےدوں، میری زمین سے فائدہ اٹھاتے رہو، یہ  درست ہے یا نہیں؟

جواب

قرض دینے والے شخص کا مقروض آدمی کی زمین سے فائدہ اٹھاناسود میں شامل ہے اور حرام ہے، اس لیے اس طرح کامعاہدہ کرنا جائز نہیں ہے، نیز اس کی رو سے قرض دینے والے کے لیے مقروض کی زمین سے اس کی مرضی کے باجود فائدہ اٹھانا حلال نہیں ۔

موجودہ دور میں بعض علاقوں میں زمینوں کو طویل المیعاد قرضوں کے بدلے گروی رکھوایا جاتاہے اور ان زمینوں پر کاشت کاری کرکے نفع اٹھایا جاتاہے، اور قرض کی ادائیگی کی صورت میں اصل مالک کو زمین واپس کردی جاتی ہے، شرعاً یہ جائز نہیں ہے۔

البتہ قرض کے بدلہ میں محض رہن کے طور پر کسی کی زمین اپنے پاس رکھنا جائز ہے؛ تاکہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے، البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے۔  نیز اس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک کی ملک قرار پاتی ہے۔ اور مرتہن (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه. وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاً حرام؛ فكره للمرتهن سكنى الموهونة بإذن الراهن". (5/166)

وفیه أیضاً:

"اَلرَهنُ هو حَبسُ شيءٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُه مِنه کَالْدَّینِ". (درمختار ج۵/ ص۳۰) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200969

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں