بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض پر زکاۃ ہے یا نہیں؟


سوال

میں نے یہ سوال بھیجا تھا:

میرے پاس کاروبار کے لیے بیس لاکھ روپے ہیں، یہ بیس لاکھ ایک سال سے زائد عرصے سے ہیں، آدھے میرے اپنے ہیں آدھے کزن کے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا ان پر زکاۃ بنتی ہے؟ چلتے کاروبار پر ؟ اگر بنتی ہے تو دونوں فریق اپنے اپنے حصے کی دیں گے ؟ مال پر بھی دیں گے یا نقدی پر ؟

تو اس کا یہ جواب دیا گیا:

اگر آپ کے پاس کیش رکھا ہوا ہے تو اس پر زکاۃ لازم ہو گی، خواہ و ہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو، اگر آپ کے پاس بیس لاکھ روپے ہیں جس میں سے آدھے آپ کے ہیں تو آپ کے ذمہ آپ کی ملکیت کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گی، باقی جتنی رقم کزن کی ہے اس کی زکاۃ کی ادائیگی اسی کے ذمہ ہو گی۔ چلتے کاروبار میں بھی جو مال خریدا بیچا جاتا ہے، اس پر زکاۃ لازم ہو گی، مال پر بھی اور نقدی پر بھی، البتہ آلاتِ تجارت پر زکاۃ لازم نہیں مثلاً کارخانہ میں جو مشینیں ہوتی ہیں ان پر زکاۃ نہیں۔ فقط واللہ اعلم

اب میرا سوال یہ ہے کہ:

میرے ذمے قرض بھی ہے قرض کی رقم تیس لاکھ سے زیادہ ہے کیا پھر بھی زکاۃ  بنتی ہے یا نہیں؟

جواب

اگر آپ کی  ملکیت میں دس لاکھ روپے ہیں اور قرضہ تیس لاکھ روپے ہے تو رواں سال جتنا قرض ادا کرنا ہے اسے منہا کرنے کے بعد زکاۃ کا حساب کیا جائے گا، اگر قرض میں سے دس لاکھ یا اس سے زیادہ کی قسطیں اسی زکاۃ والے سال میں ادا کرنی ہیں تو آپ کے اوپر زکاۃ لازم نہیں ہو گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں