پوچھنا یہ تھا کہ ایک آدمی ہے اس نے مثلاً کسی سے 8000 قرض وصول کرنا ہے، جو مقروض ہے وہ غریب ہے، آسانی سے قرضہ ادا نہیں کر سکتا، تو اب جس نے قرضہ وصول کرنا ہے وہ مقروض سے کہتا ہے کہ بھائی میرا قرض ادا کرو۔مقروض کہتا ہے کہ میرے پاس ابھی پیسے نہیں ہیں۔ مالک اسے کہتا ہے کہ اگر تمہارے پاس ابھی پیسے آجائیں تو کیا مجھے میرا قرض چکا دوگے؟ مقروض کہتا ہے: جی ہاں! بالکل چکادوں گا۔ مالک نے زکاۃ ادا کرنی ہوتی ہے۔تو مالک اسے دس ہزار روپے زکاۃ کے پیسوں میں سے زکاۃ کے طور پر دے دیتا ہے، اور مقروض دو ہزار رکھ کر آٹھ ہزار روپے بطورِ قرض ادائیگی مالک کو واپس کردیتاہے۔ کیا مالک کا یہ عمل درست ہے؟ اور کیا اس طرح مالک کی زکاۃ ادا ہو جائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مقروض شخص واقعۃً مستحقِ زکاۃ تھا تو ایسی صورت میں زکاۃ بھی ادا ہوجائے گی اور قرضہ بھی ادا ہوجائے گا۔ مستحقِ زکاۃ سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال (نقدی، سونا، چاندی، مالِ تجارت) یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتی ہو۔
تاہم اس سے بہتر صورت یہ تھی کہ پہلے مقروض شخص کسی اور سے قرض لے کر قرض اتارتا، پھر قرض خواہ اپنی زکاۃ اسے ادا کردیتا، اس رقم سے مقروض اپنا دوسرا قرض اتار دیتا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104200507
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن