بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدارِ واجب قراءت ہونے کے بعد امام کو غلطی بتانے سے کیا نماز فاسد ہوجاتی ہے؟


سوال

ہم فجر کی نماز ادا کر رہے تھے،  امام نے چھ  یا سات آیات پڑھ لی تھیں، مزید آیات وہ بھول گیا ، ایک مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے وہ لے بھی لیا اور سورت مکمل کرلی، اور نماز بھی مکمل کرلی، ایسی صورت میں دونوں کی نماز کا کیا حکم ہے، جب کہ امام صاحب رکوع میں بھی جا سکتے تھے؟

جواب

فرض نماز میں اپنے امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی, یعنی اگر امام نماز کے دوران قراءت کرتے ہوئے کوئی آیت بھول جائے، مثلاً پڑھتے پڑھتے اٹک گیا یا پس وپیش میں پڑگیا تو مقتدی (جو اس امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے) کے لیے اپنے امام کو لقمہ دینا جائز ہے، لیکن صرف غلطی بتانا مقصود ہو، اپنی قراءت مقصود نہ ہو ؛ کیوں کہ امام کے پیچھے تلاوت کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔

تاہم یہ ملحوظ رہے کہ مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے (غلطی بتانے) میں جلدی کرنا مکروہ ہے، اسی طرح امام کے لیے مقتدی کی جانب سے راہ نمائی اور لقمہ کا انتظار کرنا بھی مکروہ ہے، ایسی صورت میں امام کو چاہیے کہ وہ کسی اور سورت سے ضروری قراءت کر لے، یا کوئی اور سورت پڑھ لے، یا اگر واجب قراء ت کی مقدار پڑھ لی ہو تو رکوع کرلے۔ اسی طرح مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو ، امام کو لقمہ نہ دیا کریں ، اور شدید ضرورت سے مراد یہ ہے کہ مثلاً امام بھولنے کی وجہ سے خاموش کھڑا ہے، اور رکوع بھی نہیں کررہا  یا ایسی غلطی کرے جس سے معنی میں ایسی تبدیلی ہوجائے جس کی اصلاح نہ کی گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی تو اس صورت میں لقمہ دے دیا کریں۔

پس صورتِ مسئولہ میں سب کی نماز ہوگئی ہے، لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 99):

"والصحيح أن ينوي الفتح على إمامه دون القراءة، قالوا: هذا إذا أرتج عليه قبل أن يقرأ قدر ما تجوز به الصلاة، أو بعدما قرأ ولم يتحول إلى آية أخرى، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح عليه تفسد صلاة الفاتح، والصحيح أنها لا تفسد صلاة الفاتح بكل حال ولا صلاة الإمام لو أخذ منه على الصحيح. هكذا في الكافي. ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته ؛ لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئاً خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي. ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح ؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه، بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة، وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي. وتفسير الإلجاء: أن يردد الآية أو يقف ساكتاً. كذا في النهاية". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں