ڈرائیونگ کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں مجھ سے ایک دس بارہ سالہ بچی زخمی ہوکر وفات ہوگئی، بچی کے ورثاء نے مجھے دل سے معاف کر دیا تھا اور کسی قسم کا تاوان لینے سے انکار کردیا تھا، لیکن اب چند سال گزرنے کے بعد میرے دل میں مختلف وسوسے پیدا ہورہے ہیں کہ میں نے قتلِ خطا کیا تھا، مجھ پر بچی کی دیت لازم ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر لازم ہوئی تھی تو ورثا کے معاف کرنے سے وہ معاف ہوگئی یا نہیں؟
ڈرائیور اگر بلاارادہ غلطی سے ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے (بشرط یہ کہ ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو)۔ لیکن اگر مقتولہ کے تمام ورثا بالغ تھے اور انہوں نے برضا ورغبت دیت معاف کردی تو دیت معاف ہوگئی، لیکن نابالغ ورثا بھی ہوں تو دیت میں ان کا حصہ معاف نہ ہوگا۔البتہ کفارے کے طور پر اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔
تکملة فتح الملهم (۲ ؍ ۵۲۳ ):
"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144105200581
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن