بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مغربی ممالک میں بذریعہ بینک گھر خریدنا


سوال

میں سپین میں رہتا ہوں، جہاں ہم مسلمان اقلیت میں ہیں, جس کے بعد ظاہر ہے یہاں کا مالیاتی نظام بھی مکمل طور انٹرسٹ کی بنیاد پر قائم ہے، ہم مسلمان اپنا کوئی الگ نظام قائم نہیں کر سکتے، ایسے میں اس معاشرے میں گھر دوکان یا کوئی بھی ایسی بنیادی سہولت کے لیے  بنک سے لین دین کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں، ایسے میں کیا ہم گھر کے لیے اس بنکنگ نظام کی سہولت سے فائدہ حاصل کرسکتے ؟ اور یہ سہولت یعنی گھر خریدنے کے لیے  قرض سے خریدا مکان اگر ہم صرف رہنے کے لیے حاصل کر لیں اور وقت کے ساتھ بڑھتی قیمت یا اس کو ایک مخصوص مدت کے بعد بیچ کر فائدہ حاصل نہ کریں، صرف اور صرف اپنے رہائشی بندوبست کی ضروت کو پورا کریں تو کیا یہ جائز ہے؟ جب کہ یہاں یہ صورتِ حال ہے کرایہ اگر 600 یورو ہے تو خرید کردہ مکان کی قسط 300 اور یہ 600 جو ہم سے وصول کر رہاہے وہ بھی اسی سود کی قسط ادا کر رہاہے!

جواب

بینک سے قرضہ لے کر گھر کی خریداری اور قرضہ کی اصل رقم سے زائد رقم کی ادائیگی سود ہے ؛ لہٰذا مذکورہ بالا معاملہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ بینک سے قرضہ لے کر گھر خریدنے کے بجائے شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق جائز طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کریں، مثلاً: بینک کی انتظامیہ سے بات کی جائے کہ اگر بینک مطلوبہ گھر  اصل مالک سے پہلے خود خریدلے (بایں معنیٰ کہ وہ بینک کی ضمان میں آجائے)، پھر وہ گھر  متعین نفع کے اضافہ کے ساتھ قسطوں پر آپ کو فروخت کردے، (اس طور پر کہ قسط کی تاخیر کی صورت میں مقررہ مجموعی رقم پر اضافہ نہ ہو) پس اس طریقہ سے اگر بینک سودا کرنےپر تیار ہوجاتا ہے تو آپ اسپین میں ضرورت کا گھر  یا دوکان و دیگر اشیائے ضرورت خریدسکتے ہیں۔  غیر مسلم ممالک میں بھی سودی لین دین کی اجازت نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں