بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب پڑھنے کے بعد سفر کرکے ایسی جگہ گیا جہاں ابھی عصر کا وقت تھا تو دوبارہ مغرب کی نما پڑھنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب ایک آدمی نے مغرب کی نماز پڑھ لی اور پھر جہاز کا سفر کرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں عصر کا وقت داخل ہورہا تھا،  کیا اس شخص پر ان نمازوں کا پڑھنا واجب ہے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر علامہ شامی نے جو عود الشمس کے متعلق لکھا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو  پھر  24 گھنٹوں میں پانچ سے زائد نمازوں کا پڑھنا لازم آئے گا جو کہ خلافِ  قیاس ہے؟  

جواب

جب  ایک مرتبہ مغرب کی نماز کا فریضہ ادا کرلیا  اور  اس کے بعد سفر کرکے ایسی جگہ پہنچ گیا  جہاں ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا تو سورج غروب ہونے کے بعد  اس پر دوبارہ نماز کی ادائیگی لازم نہیں ہے ۔

"صاحب  الدرالمختار"  نے جو مسئلہ لکھا ہے اس کا خلاصہ اور مطلب یہ ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد اگر دوبارہ لوٹ آئےتو  کیا عصر کی نماز  کا وقت لوٹ آئے گا ؟ اور جس نےعصر کی نماز نہیں پڑھی تھی وہ اس وقت میں ادا کرلے تو اس  کی نماز ادا ہوگی یا قضا؟"صاحب الدر المختار"  نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ وقت لوٹ آئے گا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو اس وقت عصر پڑھے گا وہ ادا کہلائے  گی نہ کہ قضا۔

علامہ شامی رحمہ اللہ نے  "مطلب لوردت الشمس بعد غروبها"  کا عنوان قائم کرکے جو بحث کی ہے،  اس کاخلاصہ یہ ہے کہ  "صاحب النہر"  نے یہ ذکرکیا ہے کہ شافعیہ کے ہاں سورج کے لوٹنے سے وقت لوٹ آئے  گا اور  اس کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے،  جس میں ان کی عصر کی نماز نکل گئی تھی،  اس وجہ سے کہ رسول اللہ  ﷺ  کا سر مبارک آپ کی ران پر تھا  اور  آپ ﷺ  سوگئے،  جب بیدارہوئے تو سورج غروب ہوچکاتھا،  اس  پر  رسول اللہﷺ نے دعا  کی اور سورج لوٹ آیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز اداکی ۔

پھر  علامہ  شامی رحمہ اللہ نے  شیخ  اسماعیل کے حوالہ سے "صاحب النہر" کی اس بحث پر رد نقل کیا ہے کہ شوافع کے ہاں بھی سورج غروب ہوجانے پر عصر کا وقت نکل گیا،  اب اگر سورج دوبارہ لوٹ آیا اور کسی نے عصر کی نماز  پڑھی تو یہ قضا  شمار ہوگی  اورحضرت علی رضی اللہ عنہ والے واقعے کو ان کی خصوصیت قرار دیا ہے، اس کے بعد  علامہ شامی رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بھی اسی قول کی طرف ظاہر کیا ہے اور  فرمایا ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت تسلیم نہ کی جائے تو دو خرابیاں لازم آئیں گی:

1- جس نے سورج غروب ہونے پر روزہ افطار کرلیا تو  سورج لوٹ آنے پر اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

2- سورج غروب ہونے کے بعد جس نے مغرب کی نماز پڑھ لی تو سورج لوٹ آنے پر اس کی نمازِ  مغرب باطل ہوجائے گی ۔

خلاصہ یہ کہ علامہ شامی رحمہ اللہ کا  ذکر کردہ مسئلہ اس بات سے متعلق نہیں ہے کہ سورج لوٹ آنے پر دوبارہ نماز لوٹانی ہوگی،  بلکہ یہ طے ہے کہ ایک بار نماز پڑھ لی تو دوبارہ لازم نہیں ہوگی ، مسئلہ یہ ہے کہ جس نےنماز  نہیں پڑھی  اور  وقت نکل کر دوبارہ داخل ہو ا اب اس کی نماز ادا شمار ہوگی یا قضا ۔ علامہ شامی رحمہ اللہ کی مکمل عبارت ملاحظہ ہو:

مطلب لو ردت الشمس بعد غروبها

قوله: ( بالظاهر نعم ) بحث  لصاحب النهر حيث قال: ذكر الشافعي أن الوقت يعود؛ لأنه عليه الصلام والسلام نام في حجر علي رضي الله عنه حتى غربت الشمس، فلما استيقظ ذكر له أنه فاتته العصر، فقال: اللهم إنه كان في طاعتك وطاعة رسولك فارددها عليه، فردت حتى صلى العصر، و كان ذلك بخيبر، و الحديث صححه الطحاوي وعياض وأخرجه جماعة، منهم الطبراني بسند حسن، وأخطأ من جعله موضوعًا كابن الجوزي، وقواعدنا لا تأباه. آهـ قال ح: كأنه نظير الميت إذا أحياه الله تعالى، فإنه يأخذ ما بقي من ماله في أيدي ورثته؛ فيعطى له حكم الأحياء، و انظر هل هذا شامل لطلوع الشمس من مغربها الذي هو من العلامات الكبرى للساعة ا هـ 
 قال ط: والظاهر أنه لايعطى هذا الحكم؛ لأنه إنما يثبت إذا أعيدت في آن غروبها، كما هو واقعة الحديث أما طلوعها من مغربها فهو بعد مضي الليل بتمامه اهـ 
 قلت: على أن الشيخ إسماعيل ردّ ما بحثه في النهر تبعًا للشافعية بأن صلاة العصر بغيبوبة الشفق تصير قضاءً و رجوعها لايعيدها أداءً، وما في الحديث خصوصية لعلي، كما يعطيه قوله عليه الصلاة والسلام: إنه كان في طاعتك وطاعة رسولك ا هـ 
 قلت: ويلزم على الأول بطلان صوم من أفطر قبل ردّها، و بطلان صلاته المغرب لو سلّمنا عود الوقت بعودها للكلّ، والله تعالى أعلم."

(361/1ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں