بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب سے تھوڑا پہلے تلاوت کرنے کا حکم


سوال

کیا ہم مغرب سے تھوڑا  سا پہلے تلاوتِ قرآنِ  کریم کرسکتے ہیں؟

جواب

دن رات کے چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں کسی بھی وقت تلاوت کرنا جائز ہے، کسی بھی وقت تلاوت کرنے کی کوئی ممانعت شریعت مطہرہ میں وارد نہیں ہوئی ہے، البتہ  عین سورج کے طلوع ، غروب اور زوال کے وقت  تلاوت کے بجائے ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا اولیٰ و افضل ہے۔ نیز ستر کھلا ہونے کی حالت میں یا ناپاک جگہ میں تلاوت کرنا  مکروہِ تحریمی  ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 374):
 "وعن البغية: الصلاة فيها على النبي  صلى الله عليه وسلم  أفضل من قراءة القرآن وكأنه لأنها من أركان الصلاة، فالأولى ترك ما كان ركنا لها.

(قوله: الصلاة فيها) أي في الأوقات الثلاثة وكالصلاة الدعاء والتسبيح كما هو في البحر عن البغية.
(قوله: وكأنه إلخ) من كلام البحر.
(قوله: فالأولى) أي فالأفضل ليوافق كلام البغية فإن مفاده أنه لا كراهة أصلا؛ لأن ترك الفاضل لا كراهة فيه".

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’خارج نماز تلاوت قرآن پاک ان اوقات میں منع نہیں، البتہ ان اوقات میں ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا اولیٰ ہے۔‘‘(کتاب الصلوۃ، باب المواقیت، ج:۵ ص:۳۸۰، ط:مکتبہ فاروقیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں