بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معین دن روزہ رکھنے کی نذر مان کر اس دن روزہ نہ رکھنا


سوال

اگر منت مانی جائے کہ میرا یہ کام ہو جائے یا میں اس مصیبت سے بچ جاؤں تو میں اگلے دن ہی یا اس تاریخ کو روزہ رکھوں گا ،تو اگر اس دن یا اس تاریخ کو روزہ نہ رکھا جائے،  بلکہ اس سے کچھ عرصہ بعد روزہ رکھ لیا جائے تو کیا گناہ ہو گا ؟ یا کفارہ ؟ اگر کفارہ ہے تو کیا کفارہ ادا کرنا ہو گا ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر کسی کام کے ہوجانے پر ایک معین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی تو  اس کام کے ہوجانے  سے پہلے روزہ رکھنے سے نذر  کا روزہ ادا نہیں ہوگا،  البتہ اس کام کے ہوجانے کے بعد  شرط کے مطابق اگلے دن یا  متعینہ دن روزہ رکھنا یا اس سے تاخیر کرکے روزہ رکھنے سے بھی نذر کا روزہ ادا ہوجائے گا، اس پر گناہ یا کسی قسم کا کفارہ لازم نہیں آئے گا؛ اس لیے نذرِ معلّق میں سبب پائے جانے سے پہلے تعجیل صحیح نہیں ہے، لیکن سب پائے جانے کے بعد  اس میں جگہ، وقت  وغیرہ كي تعيين  نہیں ہوتی،  بلکہ  اس  کے  علاوہ کسی اور دن یا وقت میں بھی وہ کام کرلینے سے  نذر پوری ہوجاتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 436):

"(والنذر) من اعتكاف أو حج أو صلاة أو صيام أو غيرها (غير المعلق) ولو معينًا (لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير) فلو نذر التصدق يوم ا لجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز، وكذا لو عجل قبله فلو عين شهرا للاعتكاف أو صوم فعجل قبله عنه صح، وكذا لو نذر أن يحج سنة كذا فحج سنة قبلها صح  أو صلاة يوم كذا فصلاها قبله؛ لأنه تعجيل بعد وجوب السبب وهو النذر فيلغو التعيين شرنبلالية فليحفظ (بخلاف) النذر (المعلق) فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط كما سيجيء في الأيمان.

(قوله : فإنه لا يجوز تعجيله إلخ) لأن المعلق على شرط لا ينعقد سببا للحال بل عند وجود شرطه كما تقرر في الأصول، فلو جاز تعجيله لزم وقوعه قبل وجود سببه فلا يصح ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فيصح لانعقاد السبب قبله، وكذا يظهر منه أنه لا يتعين فيه المكان والدرهم والفقير لأن التعليق إنما أثر في تأخير السببية فقط فامتنع التعجيل، أما المكان والدرهم والفقير فهي باقية على الأصل من عدم التعيين لعدم تأثير التعليق في شيء منها فلذا اقتصر كغيره في بيان وجه المخالفة بين المعلق وغيره على قوله فإنه لا يجوز تعجيله فأفاد صحة التأخير وتبديل المكان والدرهم والفقير كما في غير المعلق وكأنه لظهور ما قررناه لم ينصوا عليه وهذا مما لا شبهة فيه لمن وقف على التوجيه فافهم."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144105200460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں