بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معوذتین مکی ہیں یا مدنی؟


سوال

"صحیح بخاری شریف"  میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے متعلق حدیث موجود ہے اور معوّذتین کے  شانِ نزول میں بھی جادو والی حدیث پیش کی جاتی ہے،  جب کہ سورہ فلق مکّی سورہ ہے اور یہ واقعہ اگر ہوا ہے تو وصال کے قریب ہوا ہے؟ اس  کے متعلق کیا تحقیق ہے؟

جواب

سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے مدنی  یا مکی  ہونے  سے  متعلق  دونوں  طرح  کے  اقوال  مفسرین  نے  نقل  کیے  ہیں ،  حضرت حسن  بصری،  عکرمہ،  عطاء  اور جابر  بن  زید  رحمہم اللہ کے نزدیک   یہ   دونوں سورتیں  مکی  ہیں ۔  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایک روایت یہی ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدنی ہیں،  اور یہی قول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، قتادہؒ   اوراہلِ  علم کی  ایک بڑی جماعت کا بھی ہے۔

اکثر مفسرین نے ان دونوں سورتوں کے مدنی ہونے کے قول کو ترجیح دی ہے۔ اور اس قول کے راجح ہونے کے کئی دلائل ہیں، من جملہ ان کے ان دونوں سورتوں کے نزول سے متعلق حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ کی مشہور روایت ہے جو اکثر کتبِ حدیث میں منقول ہے ، اور حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ایمان لائے ہیں ، حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں:

" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کچھ ایسی آیات نازل کی ہیں کہ کسی نے ان کے مثل آیات نہیں دیکھیں،  یعنی سورت فلق اور سورت الناس"۔(ترمذی)

نیز ان دونوں سورتوں  کے مدنی ہونے کی مؤید وہ روایات بھی ہیں  جن میں منقول ہے  کہ مدینہ طیبہ  میں یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے تھے،  اس وقت یہ سورتیں نازل ہوئی تھیں ،اور یہ  7 ھ کا واقعہ ہے۔

لہذا راجح یہی ہے کہ یہ سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں ۔

حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں :

چنانچہ زادالمسیر میں ہے :

''وفيها قولان: أحدهما: مدنية رواه أبو صالح عن ابن عباس، وبه قال قتادة في آخرين. والثاني: مكية رواه كريب عن ابن عباس، وبه قال الحسن، وعطاء، وعكرمة، وجابر. والأول أصح، ويدل عليه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سحر وهو مع عائشة، فنزلت عليه المعوذتان''. (6/202)

تفسیر ابن کثیر میں ہے :

''تفسير سورتي المعوذتين، وهما مدنيتان''. (8/530)

تفسیرالبحرالمحیط میں ہے:

''هذه السورة مكية في قول الحسن وعطاء وعكرمة وجابر ورواية كريب عن ابن عباس، مدنية في قول ابن عباس في رواية صالح وقتادة وجماعة.

قيل: وهو الصحيح. وسبب نزول المعوّذتين قصة سحر لبيد بن الأعصم اليهودي رسول اللّه صلّى اللّه عليه وسلم، وهو جف، والجف قشر الطلع فيه مشاطة رأسه عليه الصلاة والسلام وأسنان مشطه، ووتر معقود فيه إحدى عشرة عقدةً مغروز بالإبر، فأنزلت عليه المعوّذتان، فجعل كلما قرأ آيةً انحلت عقدةً، ووجد صلّى اللّه عليه وسلم في نفسه خفةً حتى انحلت العقدة الأخيرة، فقام فكأنما نشط من عقال''. (10/574)روح المعانی میں ہے :

''سورة الفلق، مكية في قول الحسن وعطاء وعكرمة وجابر ورواية كريب عن ابن عباس، مدنية في قول ابن عباس في رواية أبي صالح وقتادة وجماعة، وهو الصحيح؛ لأن سبب نزولها سحر اليهود، كما سيأتي إن شاء اللّه تعالى، وهم إنما سحروه عليه الصلاة والسلام بالمدينة، كما جاء في الصحاح فلايلتفت لمن صحح كونها مكيةً وكذا الكلام في سورة الناس''. (15/517)

تفسیر خازن میں ہے :

''سورة الفلق مدنية، وقيل: مكية، والأول أصح''. (4/499) 

خلاصہ یہ ہے کہ راجح قول کے مطابق یہ سورتیں مدنی ہیں۔  تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے ہی بعض مفسرینِ کرام کی رائے میں یہ سورتیں مکی ہیں، اگر ان کا قول تسلیم کرلیا جائے تو بھی لبید بن اعصم یہودی کے جادو سے متعلق روایت کو اس کے شانِ نزول میں پیش کرنا درست ہوگا اور اس پر اعتراض درست نہیں ہوگا؛  کیوں کہ بعض آیات کا نزول ایک سے زائد مرتبہ ہوا ہے،  اس لیے اگر دو مختلف موقعوں سے متعلق شانِ نزول کی روایات آجائیں تو دونوں اپنی جگہ درست ہوتی ہیں، اسی طرح بعض مرتبہ آیت تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوتی ہے، البتہ اسی نوعیت کا واقعہ یا مسئلہ پیش آتاہے جس کا حل سابقہ نازل شدہ آیات میں ہوتاہے، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ بعض اوقات اُن سابقہ نازل شدہ آیات کا حوالہ دے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ نمائی فرماتے تھے،  اور آپ ﷺ کا اس طرح کے مواقع پر ان آیات کو پیش کرکے استدلال کرنا اپنی طرف سے نہیں ہوتا تھا،  بلکہ وحی الٰہی کی روشنی میں ہی ہوتا تھا،  اس لیے ایسے مواقع پر بھی بعض مرتبہ شانِ نزول کے حوالے سے مختلف واقعات بیان کردیے جاتے ہیں، جو سب اپنی جگہ درست ہوتے ہیں۔

لہٰذا اگر معوذتین واقعۃً مکہ میں نازل ہوچکی تھیں تو بھی دوبارہ جب رسول اللہ ﷺ پر مدنی زندگی میں یہودی نے جادو کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ  نے جبریل امین کے ذریعے دوبارہ نازل فرماکر راہ نمائی فرمائی کہ جادو کا علاج ان آیات میں موجود ہے۔ 

تفسیر ابن عاشور میں ہے :

''واختلف فيها أمكية هي أم مدنية؟ فقال جابر بن زيد والحسن وعطاء وعكرمة: مكية، ورواه كريب عن ابن عباس. وقال قتادة: هي مدنية، ورواه أبو صالح عن ابن عباس. والأصح أنها مكية؛ لأن رواية كريب عن ابن عباس مقبولة بخلاف رواية أبي صالح عن ابن عباس ففيها متكلم. وقال الواحدي: قال المفسرون: إنها نزلت بسبب أن لبيد بن الأعصم سحر النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في "الصحاح" أنها نزلت بهذا السبب، وبنى صاحب الإتقان عليه ترجيح أن السورة مدنية''. (30/546) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں