بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم اور معذور بیٹے کی میراث میں سے حق الخدمت وصول کرنا


سوال

عبدالرحمان فوت ہوا،اس کے دو شادى شده بھائی اور اس کی بیوہ، ايک معذور لڑکا اور شادى شده لڑکی ہے، اب سوال یہ ہے کہ :
(1)اس کی وراثت کس طرح تقسیم هو گی؟

(2)شادى شدہ لڑکی کو بمع شوہر خدمت کے لیے رکھ کر بعد از وفات معذور لڑکا اور بیوہ،تمام جائیداد ان کوحق الخدمت کے طور پردی جا سکتی ہے؟

(3)معذور لڑکے کی وفات کے بعد،لڑکے کے  چچا کو بھی وراثت ملے گی یا نہیں ؟

(4)کیا شادی شده لڑکی حق الخدمت میں تمام جائیداد کی وارث بن سکتی ہے؟

جواب

1-مرحوم کے ورثا اس کی بیوہ، بیٹا اور بیٹی ہے، بھائی کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، لہذا مرحوم کے  حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی  قرض   ہو اسے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ کے 24 حصے کرکے  مرحوم کی بیوہ کو 3 حصے (12.50٪) ، اس کے بیٹے کو14 حصے (58.33٪) اور بیٹی کو 7 حصے (29.16٪) ملیں گے۔

2-شادی شدہ لڑکی کو شوہر سمیت خدمت کے لیے رکھ کر معذور بیٹے اور بیوہ کی وفات کے بعد ساری جائیداد ان کو حق الخدمت میں دینا جائز نہیں، تاہم اگر انہیں خدمت کے لیے رکھ کر ان کی حق الخدمت مقرر کی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

3-معذور لڑکے کی وفات کے بعد اس وقت زندہ ورثا اس کی جائیداد کے حق دار ہوں گے، لہذا اس وقت ورثا کی تعداد بتا کر مسئلہ معلوم کرلیا جائے، لیکن اگر اس کی وفات کے وقت مذکورہ افراد ہی موجود ہوں تو اس کے ورثا اس کی والدہ، بہن اور چچا ہوں گے۔

4-شادی شده لڑکی حق الخدمت میں تمام جائیداد کی وارث نہیں  بن سکتی ۔

و يستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث : بالنسب و هوالقرابة، و السبب و هو الزوجية ، و الولاء

(الفتاوى الهندية، كتاب الفرائض 6/ 447 ط: دار الفكر) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144010201167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں