بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور بچے کے علاج سے لاچار ہونے کی وجہ سے اسے قتل کرنا


سوال

ایک بچہ جس کی عمر نو سال ہے،  آنکھوں سے نابینا اور زبان سے گونگا ہے اور خود نہ تو چل سکتا ہے نہ بیٹھ سکتاہے  اور نہ کھڑا ہوسکتا  هے، بس ایک زندہ لاش کی طرح ہے،  ایک غریب باپ کا بیٹاہے ، جس نے اپنی طاقت کے مطابق اس کا بہت سے ڈاکٹروں اور حکیموں سے ہرممکن علاج کروایا،  لیکن اس بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا  توکیا ایسے معذور بچے کو زندگی کی قیدسے آزاد کرنا جائز ہے یانہیں؟

جواب

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں کسی بھی انسان کا قتل  درج ذیل وجوہات میں سے کسی ایک وجہ سے جائز  ہوتا ہے:

(1) قصاص میں قتل کرنا۔

(2) شادی  شدہ مرد و عورت کا زنا کرنا۔

(3)  کسی مسلمان مرد کا مرتد ہوجانا (والعیاذ باللہ)، جب کہ وہ  فہمائش کے باوجود اسلام قبول نہ کرے۔

(4) باغی یا ڈاکو کو عین بغاوت یا ڈاکا ڈالتے وقت۔

(5) جادوگر  یا ایسا چور جو شرعی حد جاری کرنے کے باوجود کسی طرح بھی باز نہ آتا ہو، اور اس سے مسلمانوں کو شدید ضرر لاحق ہو، یا لواطت کا مرتکب جو تعزیر کے باوجود باز نہ آئے ۔ البتہ  ان احوال  (جو نمبر 5 کے تحت لکھے گئے ہیں)  میں قتل کا حکم اصولی طور پر نہیں ہے، بلکہ یہ آخری حکم ہے، جو سیاستًا جاری کیا جاسکتاہے، لیکن اس  کے اجرا کے لیے  اہلِ حق مفتیانِ کرام، مسلمان قاضی اور مسلمان حاکم کا اتفاق ضروری ہوگا۔

ان وجوہ  کے  علاوہ کسی کی جان لینا شرعًا  جائز نہیں ہوتا ، نیز  یہ سوچ بھی شرعًا درست نہیں کہ بیمار یا معذور  زندہ رہ کر خود بھی تکلیف جھیلے گا اور دوسروں کے لیے  بھی تکلیف کا باعث ہوگا اور اس وجہ سے بیمار یا معذور کو قتل کرنا جائز نہیں ہوجاتا،وہ جو تکلیف جھیل رہا ہے یا بیماری کی وجہ سے خود مرجائے تو  اس کی پوچھ ہم سے نہ ہوگی،  اور ہر انسان اپنی مالی اور جانی حیثیت کے مطابق مکلف ہے، اگر مذکورہ بچے کا والد اس کے علاج کے اخراجات نہیں برداشت کرسکتا تو  امید ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہوگا، ہاں قتل کرنے کی وجہ سے  پکڑ  ہوگی، لہذا صورتِ  مسئولہ میں بچے کی معذوری اور اس کے علاج سے لاچاری کی بنا پر اسے قتل کردینا جائز نہیں ہے۔

صحیح مسلم   (5 / 106)میں ہے:

"عن عبد الله قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم : « لايحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأنى رسول الله إلا بإحدى ثلاث: الثيب الزان،  و النفس بالنفس  و التارك لدينه المفارق للجماعة »".

(باب مایباح به دم المسلم، ط: دارالجیل بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144004200687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں