بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کا عدت میں دوسرے نکاح کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرنا


سوال

میں نے پہلے سے شوہر طلاق کے بعد عدت کیے بنا دوسرا نکاح کیا، دوسرے شوہر سے بھی آٹھ مہینہ بعد طلاق ہوگئی، اب دوسرے شوہر کی عدت کی جائے گی اور پہلے سے نکاح کے لیے حلالہ کرنا پڑے گا یا نکاح کی اجازت ہے عدت کے بعد؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پہلے شوہر کے طلاق دینے کے بعد اس کی عدت میں دوسرا نکاح کرنا جائز نہیں تھا، لہذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوا تھا، جتنا عرصہ ساتھ رہے ہیں  اس پر خوب توبہ و استغفار  کرنا لازم ہے،   اگر پہلے شوہر نے آپ کو تین طلاقیں دی تھیں تو  اس سے دوبارہ نکاح  جائز ہونے کے لیے دوسرا نکاح کافی نہیں ہے اور اگر آپ کے شوہر نے آپ کو ایک یا دو طلاقیں دی تھیں تو تجدیدِ ِنکاح کرنا جائز ہے، باقی  عدت کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: اگر دوسرے شوہر نے اس بات کا علم ہونے کے باوجود نکاح کیا کہ آپ کی عدت چل رہی ہے  تو یہ دوسرا نکاح باطل تھا، اس کی عدت لازم نہیں ہے اور اگر عدت کا علم نہیں تھا تو یہ نکاح فاسد تھا،  اس کی عدت گزارنا لازم ہے۔

اس صورت میں اگر پہلے شوہر نے ایک یا دو  طلاقیں دی تھیں تو  عدت گزارنے کے بعد  پہلے شوہر سے تجدیدِ نکاح کرنا جائز ہوگا۔ اور اگر پہلے شوہر نے تین طلاقیں دی تھیں تو اس سے تجدیدِ نکاح کی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ عدت گزار کر دوسرے شخص سے نکاحِ صحیح کے بعد اگر اس نے جسمانی تعلق قائم ہونے کے بعد از خود طلاق دے دی یا اس کا انتقال ہوگیا اور اس کی عدت بھی گزر گئی تو پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔

حاشية ابن عابدين (3 / 132):

"ومقتضاه الفرق بين الفاسد والباطل في النكاح لكن في الفتح قبيل التكلم على نكاح المتعة أنه لا فرق بينهما في النكاح بخلاف البيع نعم في البزازية حكاية قولين في أن نكاح المحارم باطل أو فاسد والظاهر أن المراد بالباطل ما وجوده كعدمه ولذا لا يثبت النسب ولا العدة في نكاح المحارم أيضا كما يعلم مما سيأتي في الحدود. وفسر القهستاني هنا الفاسد بالباطل ومثله بنكاح المحارم وبإكراه من جهتها أو بغير شهود الخ وتقييده الإكراه بكونه من جهتها قدمنا الكلام عليه أول النكاح قبيل قوله وشرط حصول شاهدين وسيأتي في باب العدة أنه لا عدة في نكاح باطل وذكر في البحر هناك عن المجتبى أن كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة،  أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لايوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلًا،  قال فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها اهـ
والحاصل أنه لا فرق بينهما في غير العدة أما فيها فالفرق ثابت وعلى هذا فيقيد قول البحر هنا ونكاح المعتدة بما إذا لم يعلم بأنها معتدة لكن يرد على ما في المجتبى مثل نكاح الأختين معا فإن الظاهر أنه لم يقل أحد بجوازه ولكن لينظر وجه التقييد بالمعية.  والظاهر أن المعية في العقد لا في ملك المتعة إذ لو تأخر أحدهما عن الآخر فالمتأخر باطل قطعًا
."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں