بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب کو نقصان میں شریک کرنا درست نہیں


سوال

اگر میں نے پچاس فیصد شراکت داری کسی بینکر سے کی ہو یعنی نفع نقصان پچاس فیصد کی بنیاد پر ،جب کہ پیسے (انویسمنٹ)اس نے لگائے ہوں،مگر کاروبار میں نے سنبھالا ہو ،کاروبار میں نے دیکھا ہو،اب اس میں جو نفع ہوا ہے اس میں میرا کتنا حصہ ہوگا؟

جواب

شرعی طور پر ایک شخص کا مال (رقم)ہو  اور دوسرا اس مال کے ذریعہ محنت (عمل)کرے اور دونوں نفع میں شریک ہوں اس کو عقدِ مضاربت کہاجاتاہے،البتہ مضاربت میں کام کرنے والا صرف نفع میں شریک ہوتاہے، نقصان میں شریک نہیں رہتا،(یعنی کاروبار میں ہونے والا نقصان اولاً حاصل شدہ نفع سے پورا کیا جاتاہے، اگر حاصل شدہ مکمل نفع، نقصان پورا کرنے میں صرف ہوجائے تو محنت کرنے والے کو اجرت نہیں دی جائے گی، اور اگر نقصان کا تدارک حاصل شدہ نفع سے بھی نہ ہو تو اصل رقم سے نقصان پورا کیاجائے گا، اس صورت میں محنت کرنے والے کو اجرت بھی نہیں ملے گی، اور نہ ہی نقصان پورا کرنے کے لیے اس سے رقم  لی جائے گی)۔

اس لیےمذکورہ معاہدے کے باوجود مضارب (یعنی کام کرنے والا) نقصان میں شریک نہیں ہوگا؛ لہذا آدھے آدھے نفع کی بنیاد پر ہونے والے معاہدے کی صورت میں آدھا نفع عمل کرنے والا کا ہوگا اور آدھا نفع رقم لگانے  والے کا ہوگا، تاہم نفع کی شرح کم وبیش بھی کی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ اگر مذکورہ بینکر نے سرمایہ کاری کے لیے حرام مال دیا تھا تو اس سے حاصل شدہ نفع سائل کے لیے استعمال کرنا جائز تو ہوگا، البتہ آئندہ حرام مال لے کر اس سے کاروبار کرنے سے اجتناب کیاجائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں