بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصافحہ کی فضیلت


سوال

حدیث شریف میں ہے جب دو دوست آپس میں مصافحہ کرتے (ہاتھ ملاتے)ہیں تو ان کے درمیان سو رحمتیں تقسیم کی جاتی ہیں جن میں سے ۔۔۔اس کے لیے ہوتی ہیں جو اپنے رفیق سے زیادہ انسیت رکھتا ہے ؟

جواب

استفتاء میں مذکور یہ روایت امام طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجم الاوسط " میں ذکر کی ہے :

"حدثنا محمد بن موسى الإصطخري نا الحسن بن كثير عن يحيى بن أبي كثير عن عبد الله بن يحيى بن أبي كثير عن أبيه عن ابي سلمة بن عبد الرحمن عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إن المسلمين إذا التقيا فتصافحا  وتساءلا أنزل الله بينهما مائة رحمة تسعة وتسعين لأبشهما وأطلقهما وابرهما وأحسنهما مساءلة بأخيه."

(المعجم الاوسط للطبرانی:۸/۳۲۸، رقم الحدیث :۸۶۶۸،ط: مکتبۃ المعارف)

اس روایت کی سند ضعیف ہے ، اس سند میں دو راوی مجہول ہیں :

۱۔محمد بن موسی الاصطخری : قال ابن النجار مجهول.

(لسان المیزان:۶/۵۲۷،ط: دارالبشائر الاسلامیہ )

۲۔الحسن بن کثیر : قال أبوحاتم : مجهول.

(الجرح والتعدیل :۳/۳۴،ط: دارالارقم )

یہ روایت ابن الجوزی رحمہ اللہ نے موضوعات میں  دو مختلف سندوں سے ذکر کی ہے اور دونوں  سندیں شدید ضعیف ہیں ، ان دونوں سندوں میں محمد بن عبداللہ الاشنانی راوی ہے ، جس کو امام دارقطنی نے " دجال" کہا ہے۔ (الموضوعات :۳/۷۹،ط:دارالفکر)

"قال الدارقطنی :  کان دجالا.

قال الخطیب :کان یضع الحدیث."

(میزان الاعتدال:۴/۱۶۸، الرسالۃ العالمیۃ)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت تین سندوں سے مروی ہے ، جن میں دو شدید ضعیف ہیں اور ایک کی سند میں مجہول راوی ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ البتہ اس روایت کے ہم معنی ایک روایت "کشف الاستار  عن زوائد البزار " میں مذکور ہے ، جو حسن درجہ کی ہے ۔روایت درج ذیل ہے :

"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقِ بْنِ بُكَيْرٍ ، ثنا عُمَرُ بْنُ عِمْرَانَ السَّعْدِيُّ أَبُو حَفْصٍ ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ قَاضِي الْبَصْرَةِ ، ثنا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : " إِذَا الْتَقَى الرَّجُلانِ الْمُسْلِمَانِ فَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ ، فَإِنَّ أَحَبَّهُمَا إِلَى اللَّهِ أَحْسَنُهُمَا بِشْرًا لِصَاحِبِهِ ، فَإِذَا تَصَافَحَا ، نَزَلَتْ عَلَيْهِمَا مِائَةُ رَحْمَةٍ ، لِلْبَادِي مِنْهُمَا تِسْعُونَ ، وَلِلْمُصَافِحِ عَشَرَةٌ " قَالَ الْبَزَّارُ : لا نَعْلَمُهُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُتَابَعْ عُمَرُ بْنُ عِمْرَانَ عَلَيْهِ."

(کشف الاستار عن زوائد البزار:۲/۴۱۹، رقم الحدیث :۲۰۰۳، مؤسسۃ الرسالۃ)۔

 اس سند سے دو راوی "محمد بن مرزوق " اور " عمر بن عامر " ان کے بارے میں حافظ ابن حجر نے "صدوق له أوهام "  کہا  ہے۔  (تقریب التہذیب :۴۴۵۔۵۳۵،کتب خانہ رشیدیہ )۔ یہ روایت کشف الاستار کےعلاوہ تاریخ جرجان :(۳۶۰، رقم الحدیث :۶۸۲،ط:دائرۃ المعارف دکن)میں اور معجم الشیوخ الاسماعیلی (ص: ۶۴، رقم :۱۰۹، ط: دارالفکر ) میں اور شعب الایمان (۶/۴۷۶،ط: مکتبۃ الباز ) میں مذکور ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت حسن درجہ کی ہے ، اس کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور یہ روایت پہلی روایت کی ایک سند ( جس میں مجہول روای ہیں)کو بھی تقویت بخشتی ہے۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144012200876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں