بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشورہ کی اہمیت اور حکم


سوال

1۔ یہ بات کہاں  تک درست ہے کہ مشورہ دین کے کام میں سنت ہے اور دنیا کے کام میں مستحب؟ 

2۔  مشورہ مسجد نبوی کے اعمال میں سے ایک عمل ہے۔ تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں!

جواب

1۔ مشورہ اسلامی تعلیمات میں سے ایک نہایت مہتمم بالشان حکم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے عمل سے ثابت ہے۔اور دین کے معاملات میں آپ ﷺ نے مشورہ فرمایا ہے، اس کے بارے میں کئی احادیث ہیں۔

"روى مسلم في صحيحه من حديث ابن عباس- رضي الله عنه - قال: فلما أسروا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر وعمر: "ما ترون في هؤلاء الأسارى؟" فقال أبو بكر: يا نبي الله، هم بنو العم والعشيرة، أرى أن تأخذ منهم فديةً، فتكون لنا قوة على الكفار، فعسى الله أن يهديهم للإسلام، فقال رسول الله: "ما ترى يا ابن الخطاب؟" قلت: لا والله يا رسول الله! ما أرى الذي رأى أبو بكر، ولكني إن تمكنا فنضرب أعناقهم، فتمكن علياً من عقيل فيضرب عنقه، وتمكني من فلان (نسب فلان) فأضرب عنقه، فإن هؤلاء أئمة الكفر، وصناديدها، فهوى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال أبو بكر، ولم يهو ما قلت، فلما كان من الغد جئت فإذا رسول الله وأبو بكر قاعدين يبكيان، قلت: يا رسول الله أخبرني من أي شيء تبكي أنت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم أجد بكاء تباكيت لبكائكما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أبكي للذي عرض على أصحابك من أخذهم الفداء، لقد عرض علي عذابهم أدنى من هذه الشجرة" - شجرة قريبة من نبي الله صلى الله عليه وسلم-. وأنزل الله عز وجل: قال تعالى: ﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ ﴾ إلى قوله: ﴿ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالاً طَيِّباً وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ [الأنفال: 67-69]. فأحل الله الغنيمة لهم".

نیز صحابہ کرام سے ثابت ہے، انہوں نے اپنے دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ سے مشورہ فرمایا ہے۔

"حدثنا يحيى بن يحيى قال: قرأت على مالك عن عبدالله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان عن أبي سلمة بن عبدالرحمن عن فاطمة بنت قيس أن أبا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب، فأرسل إليها وكيله بشعير فسخطته، فقال: والله مالك علينا من شيء، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ليس لك عليه نفقة، فأمرها أن تعتد في بيت أم شريك، ثم قال : تلك امرأة يغشاها أصحابي، اعتدى عند ابن أم مكتوم، فإنه رجل أعمى، تضعين ثيابك، فإذا حللت فآذنينى، قالت: فلما حللت ذكرت له أن معاوية بن أبي سفيان وأبا جهم خطباني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه، وأما معاوية فصعلوك لا مال له، انكحي أسامة بن زيد، فكرهته، ثم قال: انكحي أسامة، فنكحته فجعل الله فيه خيراً واغتبطت ...مسلم".

خود صحابہ کا باہم دنیاوی امور میں مشورہ کرتے تھے۔جیسا کہ 17ھ میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھاکہ امارتِ اسلامیہ کی طرف سے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خطوط روانہ کیے جاتے ہیں، مگر ان میں تاریخ نہیں لکھی ہوتی، اگر تاریخ لکھنے کا اہتمام ہو جائے تو اس میں بے شمار فوائد ہیں، مثلاً پتا چل جائے گا کہ کون سے دن آپ کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا۔کب یہ حکم متعلقہ حکام تک پہنچا۔کب اور کس تاریخ کو اس پر عمل در آمد ہوا وغیرہ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ مشورہ بہت پسند آیا، چناں چہ انہوں نے اکابر صحابہ کرام  کو اس مسئلے کی طرف توجہ دلا ئی او ر مشورہ کے لیے جمع کیا۔

البتہ جو امور شریعت میں پہلے سے طے شدہ ہوں یعنی جن کا کرنا ضروری ہو یا نہ کرنا ضروری ہو،ان کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورہ نہیں کیا جائے گا،  جیسا کہ نماز پڑھی جائے یا نہیں، ہاں اس بات پر مشورہ ہوسکتا ہے کہ نماز اسی جگہ پڑھی جائے یا سفر میں تھوڑا آگے چل کر پڑھی جائے۔

قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِیْ الْاَمْرِ﴾ [اٰل عمران، جزء آیت: ۱۵۹]

وقال تعالیٰ: ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ﴾ [الشوریٰ، جزء آیت: ۳۸]

"عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: ما رأیت أحدًا أکثر مشورةً لأصحابه من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم". (سنن الترمذي / باب ما جاء في المشورة ۱؍۳۰۱ رقم: ۱۷۱۴)

"الحکم التکلیفي للعلماء في حکم الشوریٰ من حیث هي رأیان: الأول: الوجوب، والثاني: الندب، وینسب هذا القول لقتادة، وابن إسحاق، والشافعي، والربیع … وشاورهم في الأمر، فالأمر في الآیة محمول علی الندب کما في قوله صلی اللّٰه علیه وسلم: ’’البکر تستأمر‘‘. (الموسوعة الفقهیة ۲۶؍۲۷۹-۲۸۰ کویت) 

مشورہ کا حکم:اہم معاملات میں باہمی مشورہ لینا آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعثِ برکت ہے۔ (معارف القرآن ٢/٢١٩)

حدیث مبارک میں ہے : جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوگا، اور جس نے (کام سے پہلے) مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہوگا۔ لہذا دین و دنیا کے اہم معاملات میں مشورہ لینا سنت سے ثابت ہے، اور بہتر عمل ہے۔ لیکن لازم یا واجب نہیں  کہ اگر کوئی معاملہ مشورہ کے بغیر طے کردیا جائے تو اس میں گناہ ہو ،ایسی بات نہیں۔

2-رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عام  اور ریاست سے متعلق مشوروں کی جگہ مسجد ہی ہوتی تھی ۔ وہی آپ کی مجلس تھی، وہیں مشورے بھی ہوتے تھے اور فیصلہ بھی ہوتے تھے ۔ لہذا یہ کہنا درست ہے کہ مشورہ کا عمل مساجد میں ہوتا تھا ۔ لیکن خفیہ نوعیت کے مشورے آپ ﷺ خاص جگہوں میں بھی فرماتے تھے، جیسا کہ ہجرت کے موقع پر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے گھر  جاکر ان سے علیحدگی میں بات کی ۔

صحيح البخاري (8/ 21):

" حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْهِمَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ، بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَبَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ قَائِلٌ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرٌ، قَالَ: «إِنِّي قَدْ [ص:22] أُذِنَ لِي بِالخُرُوجِ»"۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں