بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے سسر کی طرف سے بہو پر کیے جانے والے مظالم کا حل


سوال

میری شادی کو سات ماہ ہوئے ہیں، تاہم ہمیں شادی کے پہلے دن سے گھر کے مسئلوں نے جکڑا ہوا ہے، مسائل معاشی یا صحت سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ ہمارے خود کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔

۱) ہم ایک گھر میں ساتھ رہتے ہیں یعنی میں، میرا شوہر اور میرے ساس، سسر اور دو دیور، ہم سب نوکری پیشہ افراد ہیں اور خود کمانے کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، میرے سسر گھر کے سربراہ ہیں اور گھر پر بادشاہت کی طرح حکم چلاتے ہیں، میں اپنے شوہر کے ساتھ اگر کہیں کھانا کھانے یا کام سے بھی باہر نکلوں تو ان کو اس بات سے مسئلہ ہے۔

۲)چھوٹی چھوٹی بات پہ گھر میں گالی گلوچ، گھر سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور مجھے برا بھلا کہا جاتا ہے، مجھے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں کام نہیں کرتی، میں چھ ماہ کے حمل سے ہوں، تاہم پھر بھی جتنا ہوسکتا ہے اپنی کوشش سے اتنا کام کرتی ہوں۔

۳)بات بات پہ مجھے نیچا دکھایا جاتا ہے، میرے ماں باپ کو برا بھلا کہا جاتا ہے، مجھے کم ذات اور غریب ہونے کا طعنہ پڑتا ہے۔

۴) ہمارے گھر میں تین گاڑیاں ہیں، ایک میرے سسر کی، ایک میرے دیور کی اور ایک میرے شوہر کی جس میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال جاتے ہیں، تاہم تینوں گاڑیاں تاحال سسر کے حکم میں ہی ہیں، ہر وقت گاڑی کا میٹر گننے اور ان کو کہیں نہ لے جانے کا حکم ہے، اگر کبھی غلطی سے میرے شوہر مجھے کہیں گھومانے لے جائیں تو گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، میں روزانہ صبح اور دوپہر uber  اور careem   سے آنا جانا کرتی ہوں، اگر کبھی غلطی سے شوہر لینے آجائیں تو ان کو گالیاں پڑتی ہیں، مجھے کہا جاتا ہے کہ میں کس حق سے ان گاڑیوں میں بیٹھتی ہوں؟

میرے  سسر مجھ سے اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ میں اپنی تنخواہ گھر میں لگاؤں یعنی اپنے دیوروں پہ، ہر پل گھر میں قبرستان کا سناٹا رہتا ہے، جب تک ایک آدمی خوش ہے، سب ٹھیک ہے، لیکن جس پل ان کا موڈ آف ہوگا اس وقت گھر میں موت کا سناٹا چھا جاتا ہے۔ ۵)میرے شوہر نے ایک بار گھر سے علیحدہ ہونے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن ان کو بڑے تایا ابو کے بلانے سے خاموش کردیا گیا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم کو اوپر نیچے کی منزل پر رکھ لیں گے،لیکن وہ بھی صرف باتیں تھیں، تینوں بیٹوں کی الگ الگ جائیداد ہیں، تاہم تاحال سب میں کرایہ دار رکھے ہوئے ہیں، اور صرف پیسے کی حوس کی خاطر الگ نہیں کرنا چاہتے، میرا اور میرے شوہر کا بلڈ پریشر ہرپل ہر  لمحہ ان پریشانیوں کی وجہ سے اوپر رہتا ہے، میری ساس طبیعت کی بہت اچھی ہیں، لیکن سسر کے  دباؤ میں  کوئی بھی خیال سب دب جاتا ہے، سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ میں اپنے سسرال میں  خوش نہیں ہوں، کیوں کہ مجھے ہر پل گھر میں گھونٹا جاتا ہے، میرے ماں باپ کو گالی دی جاتی ہے اور میرے شوہر کو میرے حقوق ادا کرنے سے روکا جاتا ہے، میری محنت کی کمائی پر نظر رکھی جاتی ہے، ہم سے ہماری آزادی چھین لی گئی ہے، آزادی روزانہ کی نہیں بلکہ ہفتہ، دو ہفتہ میں ایک بار باہر کھانا کھانے تک کی آزادی بھی چھین لی گئی ہے۔

جواب

سوال میں جو تفصیلات ذکر کی گئی ہیں ان کی رو سے آپ کے سسر کا رویہ آپ کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے، آپ کے سسر کا آپ کو اور آپ کے والدین کو گالیاں دینا اور آپ کو غریب ہونے کے طعنے دینا اور گھر سے نکالنے کی دھمکیاں دینا  وغیرہ سب امور انتہائی غلط افعال ہیں، آپ کے شوہر کو چاہیے کہ اگر مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے حقوق پامال ہورہے ہوں تو وہ اپنی استطاعت کے موافق آپ کے لیے الگ رہائش کا انتظام کر کے آپ کو وہاں رکھے، یہ آپ کا حق ہے، لیکن جب تک شوہر الگ رہائش کا انتظام نہ کرسکے اس وقت تک آپ شوہر کو تنگ کرنے کے بجائے صبر سے کام لیں اور اپنی ہمت کے موافق شوہر اور ساس، سسر کی خدمت کریں تو یہ آپ کے لیے بڑے اجر کا باعث ہوگا، ورنہ شوہر کو طعنے دینے اور تنگ کرنے سے سارا اجر ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں