بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ جائیداد تقسیم سے پہلے بیچنا


سوال

 تین بھائیوں اور تین بہنوں کی مشترکہ جائیداد جو باپ کی طرف سے میراث میں ملی ہو . اور ایک بھائی اگر اس جائیداد کو بغیر تقسیم بیچ دے  یعنی (وہ اس جائیداد کا تیسرا حصہ بغیر تقسیم بیچتا ہے .  اور اس جائیداد  میں سے  ان تین بہنوں کو بھی اپنا  حق  نہیں ملا ہو )  اور بعد میں  ایک  بھائی  دعوی کرتاہے کہ میں اس خریدو فروخت سے راضی نہیں ہوں؛ کیوں کہ اس میں نہ تو بہنوں کاحق دیاگیاہے اور نہ ہی میری رائے لی گئی ہے.   یاد رہے کہ یہ خریدو فروخت 9 یا 10 سال پہلی ہوئی ہے،  مگر اب تک اس  مشترکہ جائیداد کی تقسیم نہیں ہوئی ہے .  اگر اس بارے میں مکمل معلومات دی جائیں تو آپ کی عین نوازش ہو گی! 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں تقسیم سے پہلے مشترکہ جائیداد کے تیسرے حصے کی فروخت  شرعاً درست ہونا دیگر ورثا کی رضامندی پر موقوف ہے،  اگر وہ اجازت دے دیں اور رضامندی کا اظہار کردیں تو فروخت درست ہوگی،  ورنہ فروخت کرنے والے کے اپنے حصے کے بقدر تو فروخت  صحیح ہے اس سے زائد میں بیع(فروخت) باطل ہے۔ ایسی صورت میں سودا فسخ کرنا ممکن ہو تو جائیداد واپس لے لی جائے، اور اگر زیادہ وقت گزرنے یا کسی اور وجہ سے یہ جائیداد واپس نہ مل سکے تو بیچنے والے شخص پر اس کا ضمان آئے گا، یعنی جس وقت یہ جائیداد بیچی تھی اس وقت اس  کی  مارکیٹ میں جو قیمت تھی اس قیمت کے اعتبار سے مذکورہ شخص تمام ورثہ کو حصہ دے گا۔

 

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (2 / 543):
"وكل منهما أي كل واحد من الشريكين أو الشركاء شركة ملك أجنبي في نصيب الآخر حتى لايجوز له التصرف فيه إلا بإذن الآخر".

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 189):

’’الشريك إذا باع نصفاً معيناً من الدار المشتركة على وجه الشيوع بينه وبين شريكه الآخر فالبيع لايجوز، فلو باع الشريك غرفةً معينةً من الدار المشتركة بينه وبين آخر إلى أجنبي فالبيع غير صحيح في حصة البائع ولا في حصة شريكه؛ لأن الغرفة التي بيعت ليست للبائع فقط بل للشريك الآخر شركة في كل جزء منها كما للأول. (بزازية) والظاهر أن البيع في أحد النصفين جائز، وفي الآخر موقوف على إجازة الشريك. (الشارح)‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں