بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترک اوزار کی کمائی


سوال

میرے والدمحترم 1984ءمیں رضائے الٰہی سے فوت ہوگئے۔ والدِ محترم نے ترکہ میں دودکانیں،ایک مکان اورایک پلاٹ اوردکان کے اوزارچھوڑے یعنی والدصاحب کاآئرن ورکس کاکام تھا، وہ بجلی کے پول ،گرل اوردروازے وغیرہ بناتے تھے، اس کےاوزاربھی وراثت میں چھوڑے۔والدصاحب کے انتقال کےبعدمیں نےسب بھائیوں میں بڑاہونے کی حیثیت سے والدصاحب کاساراکام سنبھالا، اس وقت میرے سارے بھائی چھوٹے تھے اور سارےتعلیم میں مصروف تھے۔ پھرایک ایک کرکےسارے بھائی اپنی اپنی تعلیم مکمل کرکے میرے ساتھ دکان پرآتے گئے، پھر2004ء  تک ہم سب مل کرایک ساتھ کام کرتے رہے، اوراس وقت سارے ورثاء بالغ ہی تھے۔ پھر2004ءمیں تین بھائی گھریلواختلافات کی وجہ سےکاروبارسے الگ ہوکراپناکام الگ کرنے لگے۔اورباقی ہم تین بھائی بدستوروالدصاحب کے اوزارسے کام کرتے رہےاورجوبھائی الگ ہوئے تھے ان کی طرف سے ان اوزارکو استعمال کرنے کوئی صراحۃًاجازت یاممانعت نہیں تھی۔ پھر2008ءمیں والدصاحب کاترکہ تقسیم کرنے کی بات ہوئی تو دکان اورمکان تمام عاقل وبالغ بھائی بہنوں نےباہمی رضامندی سے آپس میں تقسیم کرلیے اوردکان کےسارےاوزار 12 لاکھ  71 ہزارپانچ سوروپےمیں فروخت کردیے گئے،  یہ رقم میرے پاس ابھی تک امانۃً موجودہے۔

سوال یہ ہےکہ 2004ء سے2008ء تک ہم تین بھائیوں نےوراثت کے اوزاراستعمال کیے اوراس کے ذریعے کمائی کی اس کے متعلق دوسرےایک دوبھائی کہتے ہیں کہ وراثت کےاوزارکی قیمت کے ساتھ ساتھ تم نےان اوزارسےجوکمایاوہ کمائی بھی تقسیم کی جائے۔کیاان کایہ مطالبہ درست ہے؟

جواب

مذکورہ صورتِ  حال  میں جب دیگر وراثت باہمی رضامندی سے تقسیم ہو چکی ہے تو اس رقم کو بھی باہمی رضامندی سے ہر ایک کو اس کے شرعی حصے کے مطابق ادا کردیں۔

جہاں تک مشترکہ اوزار بلا اجازت استعمال کرنے کی بات ہے تو  یہ ناجائز تھا،  لیکن ان اوزار سے جو کمائی آپ  تین بھائیوں نے کی ہے اس میں ان کا شرعی حصہ نہیں؛  اس لیے کہ انہوں نے آپ کو اوزار کرائے پر نہیں دیے تھے۔

البتہ چوں کہ آپ تین بھائیوں نے بلا اجازت اوزار استعمال کیے ہیں تو  اس کا حل یہ ہے کہ آپ ان کو اوزار کی قیمت میں سے ان کا شرعی حصہ بھی دیں اور مزید کچھ رقم دے کر ان کو راضی کرلیں۔

لقوله سبحانه:{ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ} [النساء:128]

ولما روي عن النبي ﷺ أنه قال: ’’الصلح جائز بين المسلمين، إلا صلحًا حرم حلالًا أو أحل حرامًا‘‘. (رواه الترمذي في (الأحكام)، باب (ما ذكر عن الرسول ﷺ في الصلح)، برقم: 1352)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں