بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی کا حکم / کپڑوں پر منی لگ جائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ


سوال

 1۔۔ اکثر افراد مشت زنی کرتے ہیں، یعنی اپنے آپ کو ہاتھ سے فارغ کرلیتے ہیں اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ اور کیا یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟

  2۔۔  کئی علماء کرام کے بیان سنے (منی ) کے بارے میں ، جن میں ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی ہے، جس میں ان افراد نے بیانات دیے  کہ اگر منی کپڑے پر لگ جائے تو اس جگہ کو صاف کرنے کے بعد نماز پڑھ سکتے ہیں، یعنی پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں، جب کہ اللہ رب العزت نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ  ’’ہم نے تمہیں ناپاک نطفےسے پیدا کیا‘‘۔ اس لحاظ سے تو منی ناپاک ہے۔  اور یہ حضرات واللہ اعلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا حوالہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ کے کپڑے پر منی لگ گئی تو آپ نے مذکورہ جگہ کو کھرچ کے نماز پڑھی ۔

3-اور آج کل فیس بک پر بہت علماءِ کرام کے بیانات آتے  ہیں، کیا ان کے بیانات پر یقین کرنا چاہیے؟ آج کل بہت لوگ ان کا ہی بیان سن کر بہک رہے ہیں!

جواب

1۔۔ مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے،  اس کی حرمت قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔( سورۃ المومنون  ، آیت ، ۵ تا ۸)۔ نیز کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے ، اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے ) ۔

شعب الإيمان (7/ 329):
’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول [ص:330] الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".

2۔۔منی ناپاک ہے، اور یہ اگر کپڑوں پر لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے، اور اس کو پاک کرنے دو طریقہ ہیں :

(1)  اگر رقیق یعنی نرم اور پتلی   ہوتو  اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہرمرتبہ نچوڑا بھی جائے، یہاں تک کہ اس کا اثر (چکناہٹ وغیرہ) زائل ہوجائے۔ دھوئے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔

(2)   منی اگر گاڑھی ہو اور خشک ہوکر سوکھ جائے تو ایسی صورت میں اس کو کھرچ کر یعنی  رگڑکر اس کے  اثرات زائل کرنے  سے بھی  کپڑا پاک ہوجائے گا، اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کتب حدیث میں موجود ہے، اور یہ حکم غلیظ (گاڑھی)  منی کے ساتھ خاص ہے اور اگر منی کسی بیماری یا کسی اور  وجہ سے رقیق (پتلی) ہوگئی ہوتو دھونا ضروری ہوگا۔

باقی منی کپڑے کے کسی حصہ میں لگنے سے پورے کپڑے کو دھونا ضروری نہیں ہے، بلکہ جہاں ناپاکی لگی ہے، صرف اسی جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 312، 313):
’’(ويطهر مني) أي: محله (يابس بفرك) ولايضر بقاء أثره (إن طهر رأس حشفة) كأن كان مستنجيا بماء.... (وإلا) يكن يابساً أو لا رأسها طاهراً (فيغسل) كسائر النجاسات ولو دماً عبيطاً على المشهور (بلا فرق بين منيه) ولو رقيقاً لمرض به (ومنيها) ولا بين مني آدمي وغيره كما بحثه الباقاني (ولا بين ثوب) ولو جديداً أو مبطناً.
(قوله: بفرك) هو الحك باليد حتى يتفتت بحر. (قوله: ولايضر بقاء أثره) أي: كبقائه بعد الغسل، بحر.
(قوله: بلا فرق) أي: في فركه يابساً وغسله طرياً (قوله: ومنيها) أي: المرأة كما صححه في الخانية، وهو ظاهر الرواية عندنا كما في مختارات النوازل وجزم في السراج وغيره بخلافه ورجحه في الحلية بما حاصله: إن كلامهم متظافر على أن الاكتفاء بالفرك في المني استحسان بالأثر على خلاف القياس، فلايلحق به إلا ما في معناه من كل وجه، والنص ورد في مني الرجل ومني المرأة ليس مثله لرقته وغلظ مني الرجل، والفرك إنما يؤثر زوال المفروك أو تقليله وذلك فيما له جرم، والرقيق المائع لايحصل من فركه هذا الغرض فيدخل مني المرأة إذا كان غليظاً ويخرج مني الرجل إذا كان رقيقاً لعارض اهـ
أقول: وقد يؤيد ما صححه في الخانية بما صح «عن عائشة - رضي الله عنها - كنت أحك المني من ثوب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو يصلي» ولا خفاء أنه كان من جماع؛ لأن الأنبياء لاتحتلم، فيلزم اختلاط مني المرأة به، فيدل على طهارة منيها بالفرك بالأثر لا بالإلحاق فتدبر".

3۔۔ دین کا علم ہر کس وناکس سے حاصل کرنا درست نہیں ہے، بلکہ دینی علوم اور دین سے متعلق باتیں کسی مستند اور معتمد عالم دین سے حاصل کرنی چاہییں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں