بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کے لیے کسی قادیانی کی قبر بنانے کا حکم


سوال

کیا کوئی مسلمان کسی قادیانی کی قبر بنا سکتا ہے؟ اگر کوئی ایسا کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

قادیانی نہ صرف کافر ہیں، بلکہ مرتد و زندیق بھی ہیں، لہذا  تمام مکاتبِ فکر کا متفقہ فتوی ہے کہ قادیانیوں/مرزائیوں سے خریدوفروخت، تجارت، لین دین، سلام و کلام،  ملنا جلنا، کھانا پینا، شادی و غمی میں شرکت، ان کی تجہیز و تکفین میں یا  نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ میں شرکت، تعزیت، عیادت، ان کے ساتھ تعاون یاملازمت سب شریعتِ اسلامیہ میں سخت ممنوع اور حرام ہیں۔ قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ ان کو توبہ کرانے میں بہت بڑا علاج اور ان کی اصلاح اور ہدایت کا بہت بڑا ذریعہ اور ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی نشانی ہے۔  لہٰذا کسی بھی مسلمان کے لیے کسی قادیانی کی قبر بنانا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان لاعلمی میں قادیانی کی قبر بنالے تو اسے چاہیے کہ سچے دل سے توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کسی قادیانی کی تجہیز، تکفین اور تدفین کے کسی کام میں کسی قسم کا کوئی تعاون نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔

تفسير البغوي - إحياء التراث (2/ 377):

"قوله: {ولاتصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره}، ولا تقف عليه، و [قيل] : لا تتول دفنه، من قولهم: قام فلان بأمر فلان إذا كفاه أمره. {إنهم كفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون}، فما صلى النبي صلى الله عليه وسلم بعدها على منافق ولا قام على قبره حتى قبض".

غرائب التفسير وعجائب التأويل (1/ 461):

قوله: {وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ} . كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا دُفِن ميت قام على قبره ودعا له، فنهي عن ذلك في حق المنافقين.  الغريب: القبر مصدر قبره، أي دفنه، والقيام من قام بالشيء إذا تولاه.

الهداية الى بلوغ النهاية (4/ 3089):

"قوله: {وَلاَ تُصَلِّ على أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَداً وَلاَ تَقُمْ على قَبْرِهِ}، إلى قوله: {فَهُمْ لاَ يَفْقَهُونَ}. هذه الآية نَهْيٌّ للنبي  صلى الله عليه وسلم،  عن الصلاة على هؤلاء المتخلفين عنه. {وَلاَ تَقُمْ على قَبْرِهِ}. أي: لاتتولَّ دفنه".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144201200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں