بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان عورت کا نکاح عیسائی مرد سے کیوں جائز نہیں؟ ’’ولا تنکحوا المشرکین‘‘ اور ’’ولا تنکحوا المشرکات‘‘ کی تفسیر


سوال

مسلمان عورت کا نکاح عیسائی مرد سے باطل ہونے پر کیا دلیل ہے?  {وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ} سے اس پر استدلال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی {وَلَاتَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ} بھی تو فرمایا ہے جب کہ عیسائی عورت سے نکاح جائز ہے. برائے مہربانی اس فرق کی وضاحت فرمائیں اور اس کے علاوہ دلائل پر بھی روشنی ڈالیں!

جواب

مسلمان مرد کے لیے ایسی عورت جو اہلِ کتاب ہو (یعنی عیسائی یا یہودی ہو) سے نکاح کرنا تو جائز ہے، لیکن  ہندو  یا  مجوسی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، جب کہ مسلمان عورت کے لیے کسی بھی کافر سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، چاہے کافر مرد اہلِ کتاب میں سے ہو یا اہلِ کتاب میں سے نہ ہو۔

  سورہ بقرہ کی [آیت نمبر : ۲۲۱ ] {وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [البقرة: 221]  میں {وَلَاتَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ} سے مسلمان مرد کے لیے کافر غیر اہلِ کتاب عورت سے نکاح کے جائز نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے، اور {وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ} سے مسلمان عورت کے لیے کسی بھی کافر (کتابی ہو یا غیر کتابی) سے نکاح کے ناجائز ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی اس آیت کے عموم کا تقاضا تو یہی تھا کہ مسلمان مردوں کے لیے بھی اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز نہ ہو، کیوں کہ وہ بھی مشرکات اور کافرات میں داخل ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کی کئی آیات میں اہلِ کتاب کو کفر اور شرک کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔  لیکن مسلمان مرد کے لیے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت خود صراحتاً سورۃ المائدہ کی آیت نمبر:  5  میں موجود ہے، چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{ والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم} [ المائدة: ۵ ] یعنی: اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں۔

اگر کسی نص میں اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت نہ دی جاتی تو دیگر نصوص کے عموم سے اہلِ کتاب عورتوں سے بھی نکاح کی حرمت ہی سمجھی جاتی۔

جب کہ مسلمان عورتوں کے کفار سے نکاح کی مطلقاً ممانعت سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت میں بیان کی گئی اور کسی دوسری نص (آیت یا حدیث) میں مسلمان عورت کے غیر مسلم سے نکاح کی نہ صرف اجازت منقول نہیں ہے، بلکہ  سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر: 10 میں واضح طور پر فرمایا:{لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ} یعنی: نہ تو مسلمان عورتیں ان (کفار، مطلقاً) کے لیے حلال ہیں، اور نہ ہی وہ (کفار، مطلقاً) ان کے لیے حلال ہیں۔

 لہٰذا مسلمان عورتوں کا کسی بھی کافر مرد سے نکاح ناجائز اور قطعاً حرام ہے۔ اگر یہ جائز ہوتا تو قرآنِ پاک کی کسی آیت یا رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث میں اس کی تصریح ہوتی۔

جہاں تک سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت (نمبر: 221) کی تفسیر کی بات ہے، تو مفسرین  و فقہاءِ کرام  نے ان آیات کی جو تفسیر بیان کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی آیات میں مشرک سے مراد تمام کفار ہیں، یعنی اس آیت کی رو سے مسلمان مرد کے لیے ہر کافر عورت حرام ہوگئی تھی اور مسلمان عورت کے لیے ہر طرح کا کافر مرد حرام ہوگیا، لیکن پھر سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵ {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [المائدة: 5] سے اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں کے لیے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنے کو جائز قرار دے دیا جب کہ  مسلمان عورتوں کے لیے ہر قسم کے کافر سے نکاح کرنا ناجائز ہی رہا۔

دوسری تفسیر یہ ہے بیان کی گئی ہے کہ ان آیات میں پہلے حصے میں مشرکات سے مراد وہ کافر ہیں جو اہلِ کتاب نہ ہوں، اور اس کی تخصیص کا قرینہ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 5 ہے، ظاہر ہے اللہ پاک کے علم میں دونوں آیتوں کا مضمون ازل سے ہی تھا، لہٰذا قرآنِ مجید کی آیات میں تضاد نہیں ہوسکتا۔  لیکن   {وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ}  میں (جہاں مسلمان عورت کے مشرکین سے نکاح کی ممانعت ہے، وہاں) علت یہ بیان کی گئی ہے کہ { أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ}  یعنی یہ کافر   مر د    جہنم آگ کی طرف  دعوت دیتے ہیں، اور  چوں کہ یہ علت اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب تمام کفار مردوں میں موجود ہے؛ اس لیے مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی قسم کے کافر مرد سے جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ مرد عام طور سے عورت کو اپنے دین کی طرف راغب کرلیتا ہے، لہٰذا اگر مسلمان عورت کافر مرد سے نکاح کرے گی تو اس کے بھی کفر اختیار کرنے کا قوی اندیشہ ہے، جب کہ اس کے بالمقابل مسلمان مرد اگر کتابی عورت سے شادی کرے گا تو امکان یہی ہے کہ کتابی عورت مسلمان ہوجائے گی، جب کہ وہ کافر عورت جو سرے سے کسی آسمانی مذہب کو ہی نہیں مانتی اس کا مسلمان ہونا مشکل ہے؛ اس لیے مسلمان مرد کو اہلِ کتاب  کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں مسلمان مردوں کے اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کو سخت ناپسند فرمایا، اور اسے مسلمان عورتوں کے لیے فتنے کا باعث اور دیگر پہلوؤں سے اندیشہ قرار دیا؛ لہٰذا مسلمان مردوں کے لیے بھی اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح پسندیدہ نہیں ہے، گو حلال ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 270)

"ومنها: أن لاتكون المرأة مشركةً إذا كان الرجل مسلمًا، فلايجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولاتنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221]، ويجوز أن ينكح الكتابية؛ لقوله عز وجل: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} [المائدة: 5] .

والفرق أن الأصل أن لايجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لايحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح إلا أنه جوز نكاح الكتابية؛ لرجاء إسلامها؛ لأنها آمنت بكتب الأنبياء والرسل في الجملة، وإنما نقضت الجملة بالتفصيل بناء على أنها أخبرت عن الأمر على خلاف حقيقته، فالظاهر أنها متى نبهت على حقيقة الأمر تنبهت، وتأتي بالإيمان على التفصيل على حسب ما كانت أتت به على الجملة هذا هو الظاهر من حال التي بني أمرها على الدليل دون الهوى والطبع، والزوج يدعوها إلى الإسلام وينبهها على حقيقة الأمر فكان في نكاح المسلم إياها رجاء إسلامها فجوز نكاحها لهذه العاقبة الحميدة بخلاف المشركة، فإنها في اختيارها الشرك ما ثبت أمرها على الحجة بل على التقليد بوجود الإباء عن ذلك من غير أن ينتهي ذلك الخبر ممن يجب قبول قوله واتباعه - وهو الرسول - فالظاهر أنها لاتنظر في الحجة ولاتلتفت إليها عند الدعوة فيبقى ازدواج الكافر مع قيام العداوة الدينية المانعة عن السكن والازدواج والمودة خاليا عن العاقبة الحميدة فلم يجز إنكاحها ... وأما الآية فهي في غير الكتابيات من المشركات؛ لأن أهل الكتاب، وإن كانوا مشركين على الحقيقة لكن هذا الاسم في متعارف الناس يطلق على المشركين من غير أهل الكتاب قال الله تعالى: {ما يود الذين كفروا من أهل الكتاب ولا المشركين} [البقرة: 105] .

وقال تعالى: {إن الذين كفروا من أهل الكتاب والمشركين في نار جهنم} [البينة: 6] فصل بين الفريقين في الاسم على أن الكتابيات، وإن دخلن تحت عموم اسم المشركات بحكم ظاهر اللفظ لكنهن خصصن عن العموم بقوله تعالى: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} [المائدة: 5] ... ولايجوز للمسلم نكاح المجوسية؛ لأن المجوس ليسوا من أهل الكتاب قال الله تبارك وتعالى: {وهذا كتاب أنزلناه مبارك} [الأنعام: 92] إلى قوله: {أن تقولوا إنما أنزل الكتاب على طائفتين من قبلنا} [الأنعام: 156] معناه والله أعلم، أي: أنزلت عليكم لئلا تقولوا إنما أنزل الكتاب على طائفتين من قبلنا.

ولو كان المجوس من أهل الكتاب لكان أهل الكتاب ثلاث طوائف فيؤدي إلى الخلف في خبره عز وجل، وذلك محال على أن هذا لو كان حكاية عن قول المشركين لكان دليلا على ما قلنا؛ لأنه حكى عنهم القول ولم يعقبه بالإنكار عليهم والتكذيب إياهم، والحكيم إذا حكى عن منكر غيره، والأصل فيه ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير أنكم ليسوا ناكحي نسائهم ولا آكلي ذبائحهم» ودل قوله " سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب " على أنهم ليسوا من أهل الكتاب ولا يحل وطؤها بملك اليمين أيضا، والأصل أن لا يحل وطء كافرة بنكاح ولا بملك يمين إلا الكتابية خاصة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221] واسم النكاح يقع على العقد والوطء جميعا فيحرمان جميعًا".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 271):

"ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلايجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولاتنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببًا داعيًا إلى الحرام فكان حرامًا، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلايجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لايجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141] فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز".

أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (2/ 15)

معارف القرآن للشیخ المفتي شفیع رحمه الله (ج:۱ ؍ ۵۴۰ ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں