بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلسل نفاس کا خون آرہا ہو تو روزے کا کیا حکم ہے؟


سوال

اس نفاس والی عورت کے  روزہ کا کیا حکم ہے جسے ابتدائے ولادت کے کئی دن آگے تک  نفاس کا خون بہہ رہا ہو، تو اس خون کی وجہ سے کیا روزہ رکھ سکے گی یا نہیں ؟

جواب

اگر کسی  خاتون کے ہاں پہلی ولادت ہو  اور نفاس کا خون چالیس دن مکمل ہونے پر بھی بند نہ ہوا تو اس صورت میں چالیس دن تو نفاس کے شمار ہوں گے اور اس سے زائد ایام استحاضہ کی شمار ہوں گے، غسل کے بعد ان ایام کی ہر نماز کے وقت کے لیے استنجا  کرنے کے بعد با وضو ہو کر نماز ادا کرنا لازم ہوگا، اوریہ عورت روزہ بھی رکھے گی۔

اور اگرنفاس کا خون چالیس دن سے بڑھ جائے ور  اس عورت کے ہاں پہلے بھی بچے کی ولادت ہوئی ہے تو اس صورت میں اس سے پہلے بچہ کی پیدائش کے موقع پر  جتنے دن خون آنے عادت ہے اتنے دن کا خون نفاس شمار ہوگا اور باقی بیماری کا خون شمار ہوگا۔ان باقی دنوں میں رہ گئی نمازوں کی بھی قضا کرنی ہوگی، اور روزے جو چھوٹ گئے ہیں وہ بھی رکھنے ہیں۔

اور اگر خون چالیس دن کے اندر اندر بند ہوجاتا ہے تو وہ مکمل ایام نفاس کے شمار ہوں گے، ان دنوں میں روزہ نہیں رکھے گی اور نماز بھی ادا نہیں کرے گی، تاہم روزوں کی بعد میں قضا کرنی ہوگی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 294):

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطاً؛ وإن لعادتها، فإن كتابيةً حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه (أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها.

 (قوله: إذا انقطع حيضها لأكثره) مثله النفاس، وحل الوطء بعد الأكثر ليس بمتوقف على انقطاع الدم صرح به في العناية والنهاية وغيرهما، وإنما ذكره ليبني عليه ما بعده قال ط: ويؤخذ منه جواز الوطء حال نزول دم الاستحاضة اهـ وقدمنا عن البحر أنه يجوز الاستمتاع بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دماً. اهـ وهذا في الحائض، فيدل على جواز وطء المستحاضة وإن تلطخ دماً وسيأتي ما يؤيده فافهم (قوله: وجوباً) منصوب بعامل محذوف أي بلا غسل يجب وجوباً، ومثله قوله: بل ندباً (قوله: بل ندباً) ؛ لأن قراءة {حتى يطهرن} [البقرة: 222] بالتشديد تقتضي حرمة الوطء إلى غاية الاغتسال فحملناها على ما إذا كان أيامها أقل من عشرة دفعاً للتعارض بين القراءتين، فظاهره يورث شبهة، فلهذا لايستحب، نوح عن الكافي.

(قوله: لدون أقله) أي أقل الحيض وهو ثلاثة أيام (قوله: في آخر الوقت) أي وجوباً، بركوي، والمراد آخر الوقت المستحب دون المكروه كما هو ظاهر سياق كلام الدرر وصدر الشريعة. قال ط: وأهمل الشارح حكم الجماع، ويظهر عدم حله بدليل مسألة الانقطاع على الأقل وهو دون العادة.

قلت: قد يفرق بين تحقق الحيض وعدمه، وانظر ما نذكره قبيل قوله: والنفاس لأم التوأمين (قوله: وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر (قوله: وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب، كما في النهاية والبدائع وغيرهما (قوله: احتياطاً) علة للأفعال الثلاثة (قوله: وإن لعادتها) وكذا لو كانت مبتدأةً، درر (قوله: حل في الحال) ؛ لأنه لا اغتسال عليها لعدم الخطاب، فإن أسلمت بعد الانقطاع لاتتغير الأحكام، وتمامه في البحر (قوله: حتى تغتسل) قد علمت أنه يستحب لها تأخيره إلى آخر الوقت المستحب دون المكروه.

قال في المسبوط: نص عليه محمد في الأصل. قال: إذا انقطع في وقت العشاء تؤخر إلى وقت يمكنها أن تغتسل فيه وتصلي قبل انتصاف الليل، وما بعد نصف الليل مكروه، بحر". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں