1۔کیا ضرورت کی وجہ سے (مثلاجگہ نہیں ہے، اگر ہے تو لوگ دینا نہیں چاہتے )مسجد کی چھت پر سکول کی ترتیب قائم کی جاسکتی ہے ؟جس میں سکول کے بچوں کے ساتھ حفظ کے بچے بھی پڑھیں گے،جب کہ مسجد کی چھت کاراستہ علیحدہ ہوگا؟
2۔اگر سکول کی ترتیب قائم کی جاسکتی ہے تواس میں لیڈیز ٹیچر پڑھا سکتیں ہیں؟
1۔جس زمین پر ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے تو وہ تحت الثری(زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک قیامت تک کے لیے مسجد رہتی ہے، لہذا مسجد کی چھت مسجد ہی کے حکم میں ہے، اور مسجد میں مستقل مدرسہ بنانا یا اسکول بنانا جائز نہیں ہے۔
البتہ ضرورت اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے قرآن اور دین کی ضروریات کی تعلیم مسجد کے آداب کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد کے اندر دینا جائز ہے، لہذا مسجد کے آداب، اور صفائی کا خیال کرتے ہوئے اور مسجد کے احترام کی رعایت کرتے ہوئے مسجد کی چھت پر قرآن اور دینی ضروریات کے لیے عارضی درس گاہ بنانے کی اجازت ہے، لیکن مسجد کی چھت پر اسکول کھولنا درست نہیں ہے۔
2۔ اجازت نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية". (2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)
البحر الرائق میں ہے:
"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد". (2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن