بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی دوسری منزل پر نماز ادا کرنا


سوال

مسجد کی دوسری منزل پر نماز پڑھنا کیسا ہے مکروہ ہے یا صحیح ہے؟

جواب

مسجد کی دوسری منزل پر نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے ، چنانچہ امدادالاحکام میں اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں ہے :

"الجواب: قال فی الدروکرہ تحریما الوطأ فوقہ والبول والتغوط لانہ مسجد الیٰ عنان السماء اھ وفی الفتویٰ الشامیۃ قولہ الوطأ فوقہ ای الجماع خزائن اما الوطأ فوقہ بالقدم فغیر مکروہ الا فی الکعبۃ لغیرعذرلقولھم بکراھۃ الصلوٰۃ فوقھا ثم رأیت القھستانی نقل عن المفید کراھۃ الصعود علیٰ سطح المسجد اھ ویلزمہ کراھۃ الصلوٰہ ایضا فوقہ فلیاتمل قولہ لانہ مسجد علۃ لکراھۃ ماذکرفوقہ قال الزیلعی ولھذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ اذالم یتقدم علی الامام ولایبطل الاعتکاف بالصعودالیہ ولایحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف علیہ اھ (ص ۶۸۶ ج ۱) وفی ردالمحتار (ج ۳ ص ۵۸۳) قولہ اوجعل فوقہ بیتاالخ ظاھرہ انہ لافرق بین الیکون البیت للمسجد اولاالاانہ یؤخذ من التعلیل ان محل عدم کونہ منسجداً فیما اذالم یکن وقفا علی مصالح المسجدوبہ صرح فی الاسعاف فقال واذا کان السرداب اوالعلولمصالح المسجد اوکانا وقفاعلیہ صارمسجداً اھ شربنلالیہ،قال فی البحروحاصلہ ان شرط کونہ مسجد اان یکون سفلہ وعلرہ مسجد الینقطع ح قالعبد عنہ اھ قال فی الدر (ص مذکور) فرع، لوبنی فوقہ بیتاللامام لایضرلانہ من المصالح امالوتمت المسجدیۃ ثم ارادالنباء منع اھ قلت لعل ھذا المنع مختص بمااذا بنی بیتا فوقہ للسنی کماھوظاھرواماذا بنی الصلوۃ وتوسیع المسجد فلایمنع مطلقا۱۲ ظفر، قال فی ردالمحتار وفی جامع الفتاویٰ لھم تحویل المسجد الیٰ مکان اٰخران رکوہ بحیث لایصلی فیہ اھ (ص ۵۷۲ ج۳) قلت کان لھم تحویل المسجد الیٰ مکان اٰکرقلان یحولواالصلوٰہ فی بعض المواسم من تحتہ الیٰ فوق اولیٰ بالجواز واماکراھۃ الوطأ بالاقدام فوق المسجد فانہ مختص بمااذا کان لغیر عذرواذاکان عذرفلاکراھۃ فی الصلوٰہ فوقہ ایضا، واللہ اعلم
عبارات مذکورہ سے معلوم ہواکہ صورت مذکورہ میں مسجد کی اوپروالی منزل میں نمازبلاکراہت جائزہے، مسجد کی چھت پرنماز کامکروہ ہونا اس صورت کے ساتھ مختص ہے جبکہ چھت پر اہل محلہ نماز کے لیے جگہ نہ بنادیں اور اس کو چھت ہی قرار دیں اور جب اس پر نماز کے لیے دوسری منزل بنادی گئی تو اب یہ سقف کے حکم میں نہیں، بلکہ دوسری منزل کو چھت کو سقف قراردیاجائے گا، واللہ اعلم، ۱۷ شوال ۴۰ھ"۔(1/439مکتبہ دارالعلوم کراچی)
البتہ اگر مسجدکی   نچلی منزل میں جگہ ہونے کے باوجود اسے چھوڑ کر مکمل جماعت بلا عذرمسجد کی دوسری منزل پرکروائی جائے تو یہ عمل  مکروہ ہے، اس لیے کہ مسجد کی نچلی منزل چھوڑ کر دوسری منزل پربغیر کسی عذر کے  جماعت کرانا مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث تعامل کے خلاف ہے اور نچلی منزل کا خالی رہنا مسجد کے احترام کے بھی خلاف ہے،  اس لیے بلا عذر   اصل مسجد چھوڑ کر دوسری منزل پر جماعت کرانا  خلافِ سنت اور مکروہ  ہوگا۔البتہ اگر عذر ہو تو بلا کراہت جائز ہوگا  یعنی اگر  امام  نیچے کے حصے میں مسجد کے اندرونی ہال میں ہو  اور  جماعت اس کے ساتھ ہو،لیکن  جماعت کی کثرت اور جگہ کی تنگی کی بنا پر  کچھ آدمی اوپرکی منزل پراقتدا کرلیں اسی طرح اصل مسجد میں کسی تعمیری کام کی وجہ سے وقتی طور پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہوتو اس صورت میں دوسری منزل پر نماز  بلا کراہت جائز ہوگی، شدید گرمی ہو اور نیچے نماز پڑھنے میں ناقابل برداشت مشقت ہو۔(فتاوی رحیمیہ 9/147-نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا2/274-)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں