بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی جگہ میں سیڑھیاں تعمیر کرنا


سوال

ہمارے محلے میں پرانی مسجد 10مرلے کی تھی، اب اس کے محراب کی جانب ایک کنال جگہ ملی ہے اور مسجد کی جدید تعمیر ہورہی ہے۔ اب پرانی جگہ (مسجد کی جگہ )میں سے 5فٹ کی جگہ پر ہم مسجد کی سیڑھیاں بنانا چاہتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ اور ان سیڑھیوں پر نمازی اپنی چپل لاسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر وقف زمین پر مسجد  کی تعمیر  مکمل  ہوجائے ،اور وہاں نمازیں ادا کی جائیں تو اب جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  ہوگئی وہ  ہمیشہ کے لیے ’’تحت الثریٰ‘‘  (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اب اس جگہ میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی۔

مسجد کی تعمیرِ جدید میں  یا کسی اور صورت کے تحت جو حصہ مسجد بن چکاتھا اب وہاں کوئی اور چیز (مثلاً دکانیں، بیت الخلا، وضوخانہ) نہیں بنائی جاسکتی، البتہ اگر سیڑھیاں بنائی جائیں تو وہ بھی مسجد کے حکم میں ہوں گی اور اس کابھی مسجد کی طرح ادب واحترام ہوگا، اورجوتوں سمیت وہاں داخلہ درست نہ ہوگا۔

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح. فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق. اهـ" (  کتاب الوقف، فصل في أحکام المسجد ـ. 5/ 271 ط: دارالکتاب الإسلامي، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

(قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر. (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية". (4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں