بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی توسیع کے لیے مدرسہ کی زمین مسجد میں شامل کرنا


سوال

مسجد کے صحن میں موجود مدرسے کے کمرے کو صحن کی توسیع کی خاطر گرا کر لنٹر ڈال کر اوپر مدرسہ اور نچلے حصےکو مسجد کا حصہ بنانا کیسا ہے؟جب کہ مدرسہ کے کمرے والی جگہ مدرسہ کے نام ہے اور منتظمِ مدرسہ کو مسجد کے مفاد کی خاطر اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے؟

جواب

اگر مذکورہ کمرہ مسجد کے لیے وقف ہے تب تو اسے مسجد میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر کسی کا مملوک ہے تو اس کی اجازت سے مسجد میں شامل کرسکتے ہیں۔ اور اگر  باقاعدہ مدرسہ کے لیے وقف ہے تو  پھر اس کو  مسجد میں شامل کرنا جائز نہیں ہے، اگر نمازی زیادہ ہوں تو  صفیں متصل ہونے کی صورت میں نمازی اس مدرسہ میں بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔ البتہ اگر اس میں صفیں بنانا مشکل ہو اور مسجد تنگ ہو، سب اہلِ محلہ اس میں نہیں سما سکتے ہوں ، اور قریب میں کوئی دوسری مسجد بھی نہ ہو  تواس صورت میں  مذکورہ زمین کو مسجد میں شامل کرنے کی گنجائش ہوگی، لیکن مسجد بننے کے بعد پھر اس پر باقاعدہ مدرسہ بنانا جائز نہ ہوگا، تاہم اگر مدرسہ کے لیے دوسری جگہ کا بندوبست نہ ہو تو مسجد کے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے مسجد میں بچوں کو دینی تعلیم دینے کی گنجائش ہوگی۔

 ''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به''۔ (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

''البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية''۔(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' (ويبدأ من غلته بعمارته)  ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة۔ قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولاً ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح''۔ (4/ 366، کتاب الوقف، ط:سعید) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143908200984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں