بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا پرانا منبر جلانا


سوال

ہماری مسجد میں پہلے لکڑی کا منبر تھا،  ابھی وہ منبر ہٹاکر ماربل کانیا منبر بنایا گیا ہے،  اب پوچھنا یہ ہے کہ اس پرانے کا کیا کیا جائے؟ کیا اس کو جلادینے سے کوئی حرج تو لازم نہیں ہوگا؟ اگر حرج لازم ہوگا تو کیوں؟

جواب

مسجد  کی وقف اشیاء خواہ وہ پرانی  ہوں مسجد کی مملوکہ ہیں، ان کو ضائع کرنا صحیح نہیں، اگر مذکورہ مسجد میں صحن بھی ہے اور بعض اوقات (مثلاً: گرمیوں میں) صحن میں بیان ودرس کی مجلس ہوتی ہے تو لکڑی کا منبر اس غرض سے مسجد کے گودام (اسٹور) میں رکھ دیا جائے اور بوقتِ ضرورت استعمال کیا جائے۔ اگر اس کی ضرورت نہیں ہے تو دیکھا جائے کہ منبر  کی لکڑی مسجد کی کسی اور ضرورت میں استعمال ہوسکتی ہے تو اس لکڑی سے مسجد کی ضرورت کی کوئی چیز بنوالی جائے، (مثلاً: کسی قرآنِ مجید رکھنے کی کوئی الماری یا شیلف بن سکتاہو، یا دروازے، کھڑی یا روشن دان کی چوکھٹ وغیرہ) اور اگر اسے بعینہ کسی ضرورت میں استعمال نہیں کیا جاسکتا تو  اس کو بیچ کر رقم مسجد ہی کے استعمال میں لانا چاہیے، وقف  اشیاء کا تلف کرنا جائز نہیں۔

"وذکر أبو اللیث في نوازله: حصیر المسجد إذا صار خلقاً واستغنی أهل المسجد عنه وقد طرحه إنسان إن کان الطارح حیاً فهو له وإن کان میتاً ولم یدع له وارثاً أرجو أن لا بأس بأن یدفع أهل المسجد إلی فقیر أو ینتفعوا به في شراء حصیر آخر للمسجد. والمختار أنه لایجوز لهم أن یفعلوا ذلک بغیر أمر القاضي، کذافي محیط السرخسي". (الفتاویٰ الهندیة،  ص۴۵۸ جلد۱ الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق به) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں