بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا


سوال

1۔مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات پر امہات المومنین نے نمازِ جنازہ مسجد میں ادا کرنے کی درخواست کی تاکہ ہم بھی شرکت کرسکیں اس سےثابت ہوتا ہے:

2۔  کیاعورتوں کانماز جنازہ میں شرکت جائزہے؟

جواب

1۔ بلاکسی عذر کے مسجد میں جنازے کی نماز اداکرنا مکروہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول یہی تھا کہ نمازِ جنازہ مسجد سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً شدید بارش ہو اور کوئی متبادل جگہ موجود نہ ہوتو اس صورت میں مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔

2۔نمازِ جنازہ کی ادائیگی مردوں پر لازم ہے عورتوں پر نہیں،اس لیے عورتوں کا جنازے کی نماز کے لیے نکلنا درست نہیں ہے۔''فتاوی ہندیہ'' میں ہے:

''ولا حق للنساء في الصلاة على الميت ولا للصغار''. (4/450)

آپ نے جس واقعہ کی جانب اشارہ کیاہے ،وہ کتبِ احادیث میں منقول ہے ،چنانچہ مسلم شریف  میں ہے :

"عن عباد بن عبد الله بن الزبير يحدث عن عائشة أنها لما توفي سعد بن أبي وقاص أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم أن يمروا بجنازته في المسجد فيصلين عليه، ففعلوا فوقف به على حجرهن يصلين عليه، أخرج به من باب الجنائز الذي كان إلى المقاعد، فبلغهن أن الناس عابوا ذلك وقالوا: ما كانت الجنائز يدخل بها المسجد. فبلغ ذلك عائشة فقالت: ما أسرع الناس إلى أن يعيبوا ما لا علم لهم به. عابوا علينا أن يمر بجنازة في المسجد وما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل ابن بيضاء إلا في جوف المسجد".

ترجمہ:'' عباد بن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ  جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے پیغام بھجوایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے لے کر گزرو؛ تاکہ وہ بھی نمازِ جنازہ ادا کرلیں، لوگوں نے ایسا ہی کیا اور ان کے حجروں کے آگے جنازہ روک دیا، تاکہ وہ اس پر نماز جنازہ ادا کرلیں، پھر ان کو باب الجنائز سے نکالا گیا جو مقاعد کی طرف تھا، پھر ازواجِ مطہرات کو یہ خبر پہنچی کہ لوگوں (صحابہ کرام) نے اس کو معیوب جانا ہے اور لوگوں نے کہا ہے کہ جنازوں کو مسجد میں داخل نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہنچی تو انہوں نے کہا: لوگ ناواقفیت کی بنا پر اس بات کو معیوب سمجھ رہے ہیں، اور ہم پر جنازہ کے مسجد میں گزارنے کی وجہ سے عیب لگا رہے ہیں حال آں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا''۔

محدثین نے اس روایت کے کئی جوابات دیے ہیں:

1۔ سہیل ابن بیضاء کی نمازِ جنازہ بارش یا اعتکاف کے عذر  کی وجہ سے مسجد میں پڑھی گئی تھی ۔

2۔ مذکورہ بالا روایت میں  خود صحابہ کا انکار: ’’ ما کانت الجنائز یدخل بها المسجد‘‘ ثابت کرتا ہے کہ نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھنے کا دستور نہ تھا۔

3۔  مذکورہ بالا روایت مرسل ہے اور مرسل سے استدلال صحیح نہیں ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں حدیثِ مرفوع متصل موجود ہو۔

حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں :

عمدۃ القاری میں ہے:

" أن حديث عائشة إخبار عن فعل رسول الله في حال الإباحة التي لم يتقدمها نهي وحديث أبي هريرة إخبار عن نهي رسول الله الذي قد تقدمته الإباحة فصار حديث أبي هريرة ناسخاً، ويؤيده إنكار الصحابة على عائشة رضي الله تعالى عنها؛ لأنهم قد كانوا علموا في ذلك خلاف ما علمت، ولولا ذلك ما أنكروا ذلك عليها". (12/395)

ترجمہ: مسجد میں نمازِ جنازہ کے جواز سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل ابن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں ادا فرمائی) اس وقت کے بارے میں ہے جب مسجد میں نمازِ جنازہ کی ممانعت نہیں تھی، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مسجد میں نمازِ جنازہ کی ممانعت ہے وہ بعد کی ہے، لہٰذا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ناسخ ہوگی، اور اس کی تائید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انکار سے بھی ہوتی ہے؛ اس لیے کہ ان کا عمل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مذکورہ عمل کے برخلاف تھا، ورنہ وہ اسے اچھنبا نہ سمجھتے۔

وفیه أیضاً:

" (فإن قلت ) مسلم أخرج حديث عائشة ولم يخرج حديث أبي هريرة؟ قلت: لايلزم من ترك مسلم تخريجه عدم صحته؛ لأنه لم يلتزم بإخراج كل ما صح عن النبي، كذلك البخاري، ولئن سلمنا ذلك وأن حديث أبي هريرة لايخلو من كلام، فكذلك حديث عائشة لايخلو عن كلام؛ لأن جماعة من الحفاظ مثل الدارقطني وغيره عابوا على مسلم تخريجه إياه مسنداً؛ لأن الصحيح أنه مرسل كما رواه مالك والماجشون عن أبي النضر عن عائشة مرسلاً، والمرسل ليس بحجة عندهم. وقد أوّل بعض أصحابنا حديث عائشة بأنه إنما صلى في المسجد بعذر مطر، وقيل: بعذر الاعتكاف، وعلى كل تقدير الصلاة على الجنازة خارج المسجد أولى وأفضل، بل أوجبللخروج عن الخلاف، لا سيما في باب العبادات؛ ولأن المسجد بني لأداء الصلوات المكتوبات فيكون غيرها في خارج المسجد أولى وأفضل. فإن قلت: قالوا: خروج النبي من المسجد إلى المصلى كان لكثرة المصلين وللإعلام؟ قلت: نحن أيضاً نقول: صلاته في المسجد كان للمطر أو للاعتكاف، كما ذكرنا". (12/158)

ترجمہ: اگر آپ یہ سوال کریں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث تو امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے، جب کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث انہوں نے ذکر نہیں کی؟ تو میں کہوں گا: امام مسلم رحمہ اللہ کے اس حدیث کو ذکر کرنے سے اس کا غیر صحیح ہونا لازم نہیں آتا؛ اس لیے کہ امام مسلم نیز امام بخاری رحمہما اللہ نے ہر صحیح حدیث اپنی صحیحین میں جمع کرنے کا التزام نہیں کیا ہے، اور اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ حدیثِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کلام سے خالی نہیں ہے، تو بالکل اسی طرح حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کلام سے خالی نہیں ہے؛ اس لیے کہ حفاظِ حدیث کی ایک جماعت (مثلاً: امام دارقطنی وغیرہ) نے امام مسلم رحمہ اللہ پر اس حدیث کی تخریج کی وجہ سے تنقید کی ہے؛ کیوں کہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیثِ عائشہ مرسل ہے، جیساکہ امام مالک اور ماجشون نے ابوالنضر (رحمہم اللہ) عن عائشۃ رضی اللہ عنہا یہ روایت نقل کی ہے، اور حدیثِ مرسل تو ان (حنفیہ کے علاوہ ائمہ) کے نزدیک حجت نہیں ہے۔

اور بعض حنفیہ نے حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں تاویل کی ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں نمازِ جنازہ بارش کے عذر کی وجہ سے ادا فرمائی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعتکاف کے عذر کی وجہ سے مسجد میں نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ بہر صورت نمازِ جنازہ مسجد سے باہر افضل و اولی ہے، بلکہ اختلافِ ائمہ سے نکلنے کے لیے واجب ہے، (کیوں کہ مسجد کے باہر بالاتفاق جائز اور آپ ﷺ کا معمول ہے، جب کہ مسجد میں مطلقاً جواز میں اختلاف ہے) خصوصاً عبادات کے باب میں اختلاف سے بچنا زیادہ اہم ہے۔ نیز مسجد تو پنج وقتہ فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے بنائی گئی ہے لہٰذا ان کے علاوہ عبادات مسجد سے باہر اولی و افضل ہوں گی۔

اگر آپ یہ سوال کریں کہ دیگر ائمہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا عید گاہ کی طرف نکل کر جنازہ ادا فرمانا نمازیوں کی کثرت اور اعلان کے لیے ہوتا تھا؟ تو میں جواب میں کہوں گا: ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ (نبی کریم ﷺ کا یہی معمول تھا اور) مسجد میں آپ ﷺ کا نمازِ جنازہ ادا فرمانا بارش یا اعتکاف کے عذر کی وجہ سے تھا، جیساکہ ہم نے بیان کردیا"۔

صاحب مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

''مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ سعد ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے؛ کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں، بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔

جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے  آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی''۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں