بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں مدرسہ قائم کرنا


سوال

میں جامعہ کا فاضل ہوں،  میں ایک مسجد کا امام بنا،  محنت سے بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا،  بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی گئی مدرسین بڑھتے گئے،  الحمد للہ اب 9 اساتذہ اور تقریباً 350 طلبہ ہیں، ان میں سے 50  تک طلبہ حفظ قرآن کررہے ہیں،  اب سوال یہ ہے کہ بچوں سے فیس وصول کرکے اساتذہ کی تنخواہیں پوری کی جاتی ہیں،  ایسے درس وتدریس کا مسجد میں ہونا کیسا ہے؟ جب کہ متبادل جگہ کافی کوشش کے باوجود نہ مل سکی!

جواب

مسجد  میں مستقل بنیادوں پر مدرسہ یا مکتب قائم کرنا شرعاً  جائز نہیں،  تاہم مدرسہ یا مکتب مسجد کی حدود سے باہر قائم ہو اور جگہ کی تنگی کے باعث عارضی طور پر مسجد میں بلامعاوضہ تعلیم دی جائے اور مسجد  کے آداب کی مکمل رعایت رکھی جائے تو اس کی گنجائش ہے،  لیکن اجرت لے کر تعلیم دینا جائز نہیں، لہذا متبادل جگہ کا انتظام کیا جائے یا بچوں سے فیس نہ وصول کی جائے۔

حاشية رد المختار على الدر المختار - (6 / 428):
"(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق  أفاده الشارح قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم".

الفتاوى الهندية - (43 / 34):
"وَلَوْ جَلَسَ الْمُعَلِّمُ فِي الْمَسْجِدِ وَالْوَرَّاقُ يَكْتُبُ ، فَإِنْ كَانَ الْمُعَلِّمُ يُعَلِّمُ لِلْحِسْبَةِ وَالْوَرَّاقُ يَكْتُبُ لِنَفْسِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ ؛ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ ، وَإِنْ كَانَ بِالْأُجْرَةِ يُكْرَهُ إلَّا أَنْ يَقَعَ لَهُمَا الضَّرُورَةُ ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں