بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں دوسری جماعت کا حکم


سوال

جماعت ثانیہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ہر وہ مسجد جہاں مؤذن و  امام مقرر ہو،  اور پنج وقتہ نماز کے لیے اذان دی جاتی ہو  اور  با جماعت نماز ادا کی جاتی ہو، اور وہاں کے کچھ نمازی مخصوص ہوں، وہاں جماعت سے نماز ادا کیے جانے کے بعد دوسری، تیسری جماعت مکروہِ تحریمی ہے، البتہ وہ نماز کے لیے مختص مقامات جہاں پنج وقتہ نماز ادا نہ کی جاتی ہو، یا  باہر راستوں پر بنی مساجد جہاں امام مقرر نہ ہو، وہاں یکے بعد دیگرے نماز باجماعت ادا کرنا مکروہ نہیں۔

’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ  إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولایجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

ترجمہ: حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام جب مسجد میں آتے کہ وہاں نماز ہوچکی ہوتی تو وہ انفرادی نماز ادا کرتے تھے۔

بدائع الصنائع میں جماعت ثانیہ کے مکروہ ہونے کی عقلی وجہ منقول ہے کہ  تکرارِ جماعت پہلی جماعت کی تقلیل کا سبب ہے؛ کیوں کہ جب لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ جماعت نکل بھی جائے تو  وہ دوسری، تیسری، چوتھی جماعت کراسکتے ہیں، تو اس صورت میں پہلی جماعت میں شامل ہونے کا اہتمام ختم ہوکر رہ جائے گا، جس کی وجہ سے پہلی جماعت تقلیل کا شکار ہوجائے گی، جوکہ مکروہ ہے، لہذا تقلیل جماعت کا سبب بھی مکروہ شمار ہوگا۔

’’لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لاتفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں