مفتیانِ کرام کیا فرماتے ہیں کہ آج کل مسجدوں اور مدرسوں کو اور مدارس میں دورہ حدیث کی درس گاہوں کو سجایا جاتاہے، یہ شریعت کی رو سے جائز ہے یا ناجائز؟
مسجد و مدرسہ کی تعمیر کےمتعلق ضابطہ یہ ہے وہ مسجد و مدرسہ جس محلے یا علاقے میں واقع ہو، اس محلے میں موجود گھروں یا تعلیمی اداروں کے معیار سے اگر برتر نہ ہو، تو کسی طرح ان سے فروتر بھی نہ ہو، بلکہ کم از کم ان کے معیار کے مطابق ہو، اس سےزائد تزیین و آرائش کے لیے وقف کے پیسوں کا استعمال جائز نہیں، اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مال سے مسجد یا مدرسے کی تزیین و آرائش کا اہتمام کرتا ہے، تو گنجائش ہے، البتہ دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے: (1) مسجد و مدرسہ کے وقار اور مرتبہ کے خلاف کوئی چیز یا عمل نہ ہو۔ (2) اس کے التزام سے بچا جائے کہ ہر تقریب میں لازمی طور پر تزیین کی جائے یا اس کے لیے مستقل چندہ کیا جائے۔ اور اگر وقف مال سے تزیین کی گئی تو متولی و منتظم ضامن ہوگا۔
"لابأس بنقشه خلا محرابه بجص، وماء ذهب بماله لا من مال الوقف، وضمن متولیه لو فعل، النقش البیاض، إلا إذا کان لإحکام البناء". (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیها 1: 658 فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106201279
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن