بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مستورات کو پڑھاناوردی میں ٹخنہ کھلا رکھنا


سوال

 الحمداللہ :احقر محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہے، ظلم وجبر ، رشوت ستانی اور دیگر برائیوں سے بچنے کے لیے احقر نے بڑوں کے مشورے سے پولیس ٹریننگ کالج سعید آباد میں تبادلہ کرایا اوروہاں شعبہ تدریس میں کارِسرکار سرانجام دے رہا ہوں ۔مگر گزشتہ سال سے محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتی کا رجحان بڑھ رہا ہے ،جن کی جسمانی اور تدریسی تربیت ہمارے PTCسعید آباد میں ہوتی ہے ۔اب کیوں کہ میرا تعلق شعبہ تدریس سے ہے ،اس لیے  ان کو پڑھانے کی ذمہ داری ہمارے شعبہ کی ہے ، پڑھانے کے اعتبار سے کلاس کی نوعیت یہ ہے کہ اس میں تمام طالبات بغیر نقاب کے ہوتی ہیں ، استاد اور طالبات کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا ،جیسے عام لڑکوں کو پڑھاتے ہیں ویسے ہی ان کو بھی پڑھانا ہوتا ہے ۔ لیڈیز کی سات سے آٹھ کلاسیں روزانہ ہوتی ہیں ،ہر روز 40منٹ کے1یا 2 ان میں پیریڈ ہوتے ہیں،میری کوشش ہوتی ہے کہ لڑکوں کی کلاسوں میں رہوں ، لیکن لیڈیز کلاسسز کا سلیبس بھی مکمل کرانا ضروری ہے ،جب میرے پیریڈ لیڈیز کلاسسز میں ہوتے ہیں تو میں اپنے دوسرے استاد ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری جگہ لیڈیز کلاس میں چلے جائیں، میں آپ کی جگہ لڑکوں کی کلاس میں چلا جاتا ہوں ۔ ساتھ والےتمام اساتذہ لیڈیز کلاسسز میں پڑھاتے ہیں ،اور بعض اس کو اچھا اورحقوق نسواں کا حصہ سمجھتے ہیں، جب کہ اسی قسم کی سوچ تقریباََِِ افسران بالا کی بھی ہے ۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ:

1:۔ اس طرح لیڈیز کلاسسز پڑھانے کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کے کیا احکام ہیں؟  اور اگرافسرانِ بالا مجھ سے لیڈیز کلاسسز نہ پڑھانے کے بارے استفسار کرتے ہیں تو انہیں کیا جواب دیا جائے ؟

2:۔وردی کی پینٹ احقر ٹخنوں سے اونچی سلواتا ہے، بعض افسران اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں ، وردی کی پینٹ ٹخنوں سے نیچے کرنے کے بارے میں بھی احکام کی وضاحت فرمادیں ۔

جواب

 1۔ سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق لڑکیوں کو پڑھانا شرعاً درست نہیں ہے۔ اگر لڑکیاں  باپردہ ہوکر آئیں اور لڑکوں کےساتھ اختلاط نہ ہو اورپڑھائے جانے والے مضامین و کتب میں خلافِ شرع کوئی بات نہ ہو  اور استاذ اور طالبات کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہو توپڑھاناجائز ہوگا، اگر باپردہ انتظام نہیں ہوسکتا تو سائل کو چاہیے کہ کسی اور شعبے میں تبادلہ کروالے۔ جہاں تک معاملہ ہے رشوت ستانی اور دیگر برائیوں کا، تو ان سے بچنا اور ان میں مبتلا ہونا ہرانسان کے اپنے اختیار میں ہے، سائل کو چاہیے کہ خود ان برائیوں سے بچتے ہوئے سرکاری خدمت انجام دے، یہ مشکل ضرور ہے، لیکن امانت و دیانت کے ساتھ انجام دی جانے والی خدمت کا صلہ اللہ رب العزت اپنے خزانہ غیب سے عطا فرمائیں گے۔

2 ۔ مرد کے لیے ٹخنوں کو چھپانا ناجائز ہے، بہت سی احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر وعیدیں بیان فرمائی ہیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آدھی پنڈلی تک تہبند باندھنے کا تھا ؛ اس لیے ہر مسلمان مرد پر لازم ہے کہ وہ ٹخنے کھلے رکھے،ذیل میں اس مناسبت سے دو  حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں:

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جتنا حصہ تہبند /زیرجامہ کا ٹخنے سے نیچے ہوگا، اتنا حصہ جہنم کی آگ میں ہوگا۔'' (صحیح البخاری بحوالہ مشکاۃ المصابیح)

'' حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مؤمن کا زیرجامہ نصف (آدھی) پنڈلی تک ہوتاہے، آدھی پنڈلی سے ٹخنوں تک ہونے میں مؤمن پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا وہ جہنم کی آگ میں ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔۔۔ الحدیث۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ بحوالہ مشکاۃ)

اس لیے وردی/ شلوار وغیرہ کے ذریعے ٹخنے چھپانا ناجائز ہے۔افسران بالا سے اس دینی مجبوری کاذکر کیاجاسکتا ہے، البتہ اس میں اتنا مبالغہ نہ کیا جائے کہ وردی آدھی پنڈلی سے بھی اوپر کرلی جائے، یہ صورت غلو کی ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143903200099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں