بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق کے سلامِ عمد کا مطلب


سوال

مسبوق کا سلامِ عمد نماز کو فاسد کردیتا ہے تو سلامِ عمد  کی کیا صورتیں ہیں؟

جواب

اگر مسبوق عمداً  (جان بوجھ کر) سلام پھیر لے تو  اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، سلامِ عمد سے مراد یہ ہے کہ مسبوق یہ جانتے ہوئے سلام پھیر دے کہ ابھی اس کی چندرکعتیں باقی ہیں۔

عام طور پر اس کی دو صورتیں زیادہ پائی جاتی ہیں:

1.امام اپنی آخری رکعت پر سلام پھیر رہا ہو اور مقتدی اس کے ساتھ قصداً سلام پھیر دے۔

2. امام سجدہ سہو کرنے کے  لیے سلام پھیر رہا ہو اور مقتدی اس کے ساتھ سلام پھیر لے، یہ صورت عموماً زیادہ پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ مسبوقین کو  اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ  ایسی صورت میں امام کے ساتھ سجدہ سہو  تو کرنا ہے، سلام نہیں پھیرنا اور لوگ سلام پھیر لیتے ہیں، واضح رہے کہ مسبوقین کا مسئلہ سے لا علم ہونا عذر نہیں اور اس صورت میں سلامِ عمد سے ان کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 82):
"(قوله: والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود؛ لأنه لايتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد، فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء، فإن سلم فإن كان عامدًا فسدت، وإلا لا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 83):
"ولو سلّم على ظنّ أنّ عليه أن يسلّم فهو سلام عمدٍ يمنع البناء".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں