ایک بندہ رمضان میں امام کے ساتھ وتر کی تیسری رکعت میں شامل ہوا، اور امام کے ساتھ قنوت پڑھ لی۔ جب اپنی نماز پوری کرنے لگا تو تیسری (آخری) رکعت میں اس نے عمدًا یا سہوًا دوبارہ قنوت پڑھ لی۔ ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں امام کے ساتھ وتر کی تیسری رکعت میں شریک ہونے والے (مسبوق) نے جب امام کے ساتھ دعائے قنوت پڑھ لی تھی تو بقیہ دو رکعتیں بغیر قنوت کے پوری کرنا ضروری تھا۔ دوبارہ آخری رکعت میں دعائے قنوت سہواً یا عمداً پڑھنے کی صورت میں سہو سجدہ لازم آتا ہے، اگر سہو سجدہ کر لیا ہے تو نماز ہو جائے گی، اور اگر نہیں کیا تو اس نماز کے وقت کے اندر اعادہ لازم ہے، اور وقت کے گزر جانے پر اعادہ کرنا واجب نہیں ہے، کرلے تو بہتر ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"المسبوق يقنت مع الإمام و لايقنت بعده. كذا في المنية فإذا قنت مع الإمام لايقنت ثانيًا فيما يقضي. كذا في محيط السرخسي في قولهم جميعا. كذا في المضمرات."
(کتاب الصلاۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ج: 1/ صفحہ: 111، ط: دار الفکر)
وفیه أیضًا:
"و لايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي."
(کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج: ا/ صفحہ: 126، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"[تنبيه] قيد في البحر في باب قضاء الفوائت وجوب الإعادة في أداء الصلاة مع كراهة التحريم بما قبل خروج الوقت، أما بعده فتستحب."
(کتاب الصلاۃ، مطلب واجبات الصلاة، ج: 1/ صفحہ: 457، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200167
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن