بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق کے سہواً سلام پھیردینے کا حکم


سوال

مسبوق آدمی امام کے ساتھ غلطی سے ایک سلام پھیر کرپھر کھڑا ہوجائے تو کیا وہ آخر میں سجدہ سہو کرے یا نہ کرے؟

جواب

اگر مسبوق نے بھولے سے امام کے بعد ایک طرف یا دونوں طرف سلام پھیر دیا  اورنماز کے منافی کوئی عمل نہیں کیا تواس کی نمازفاسد نہیں ہوئی، وہ اپنی نماز مکمل کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے۔ اور اگر مسبوق نے امام کے بالکل ساتھ  سہواً سلام پھیرا (جو کہ نادر الوقوع ہے) تو مسبوق پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔

"(قوله:والمسبوق یسجد مع إمامه) قید بالسجود؛ لأنه لایتابعه في السلام؛ بل یسجد معه ویتشهد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم فإن کان عامداً فسدت وإلا لا، ولا سجود علیه إن سلم سهواً قبل الإمام أو معه، وإن سلم بعد لزمه؛ لکونه حینئذ منفرداً، بحر، وأراد بالمعیة المقارنة، وهو نادر الوقوع، شرح المنیة، وفیه: ولو سلم علی ظن أن علیه أن یسلم فهو سلام عمد یمنع البناء". (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السهو، ۲:۵۴۶، ۵۴۷،)

"ثم قال: فعلی هذا یراد بالمعیة حقیقتها، وهو نادر الوقوع اهـ، قلت: یشیر إلی أن الغالب لزوم السجود؛ لأن الأغلب عدم المعیة، وهذا مما یغفل کثیر من الناس فلیتنبه له". (المصدر السابق، کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة ، ۲:۳۵۰)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں