بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مساجد میں بچوں کو لانے کا حکم اور ان کو روکنے سے ممانعت کے ترغیبی پوسٹرز


سوال

 ہمارے محلہ کی جامع مسجد میں انتظامیہ  کی طرف سے ایک نوٹس لگا ہے جس میں مصلین کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ بچوں کے شور پر صبر کریں اور مسجد میں آنے سے نہ روکیں؛ کیوں کہ ہم اسی بچہ کو کل منتیں مانگ کر مسجد آنے کا کہیں گے۔

(۱)کیا یہ حکمت ہے؟(۲) کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟ جب کہ بچوں کے شور سے دوسروں کی نماز میں خلل آتا ہے؟ (۳)کس عمر سے بچوں کو مسجد میں لایا جاسکتا ہے؟ (۴) موجودہ امام صاحب مفتی بھی ہیں، کراچی کے معروف مدرسہ سے۔ ان  کے سکوت سے عام آدمی کیا ان کے وعظ اور درس سنے  یا نہیں ؟دین کی بات سیکھے یا نہیں ؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ  کا حسن  ہے کہ اس نے فوائد  کی بھی  رعایت  رکھی ہے اور نقصانات  سے  بچنے کابھی اہتما م کیا ہے،  شریعت کی تعلیمات افراط وتفریط  کے درمیان اعتدال پر مبنی  ہیں، بچوں کو مسجد میں لانے یا نہ لانے  سے متعلق بھی احکاماتِ  شرعیہ اعتدال پر مبنی ہیں، مطلقًا ہر قسم کے بچوں کو لانا جائز ہے ، نہ ہی  ہر قسم کے بچوں کو لانا منع ہے۔

بچوں کو مسجد میں لانے میں جہاں یہ اندیشہ ہے کہ مسجد میں شوروشغب ہوگا ،عبادات کاماحول متاثر ہوگا اوراپنی کم عمری کی وجہ سے بچے بسااوقات مسجد میں گندگی بھی کردیتے ہیں، جب کہ  مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا تقدس و احترام بھی لازم ہے، اور  وہاں ہر قسم کا شور وشغب، بلکہ دنیاوی  باتیں کرنا بھی منع ہے،لیکن دوسری طرف  بچوں کواپنےساتھ  مسجدلانے میں یہ فوائدبھی  ہیں کہ ابتدا  ہی سے ان کی مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی عادت بن جائے گی، جو کہ پسندیدہ چیز ہے۔

احادیثِ  مبارکہ ، شراحِ  حدیث اور فقہاءِ کرام کی عبارات میں غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ   بچوں کو مسجد میں لانے یا نہ لانے سے متعلق حکم میں  بچوں کی  چند اقسام ہیں:

(1)  جو بچے اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں کہ انہیں پاکی وناپاکی،اور مسجد اورغیرمسجد کا بالکل شعور نہ ہو اور ان سے مسجد ناپاک ہوجانے کا غالب گمان ہو توا نہیں مسجد میں لانا بالکل جائز نہیں ہے، اس لیے کہ مسجد کو پاک کرنے کا حکم ہے  اور اس میں گندگی ، شوروشغب کرنا منع ہے، اس قسم کے بچوں سے متعلق احادیثِ  مبارکہ میں ہے کہ :

” اپنی مسجدوں کوبچوں اور پاگلوں سے دوررکھو۔۔۔الخ

(2)  جو بچے قریب البلوغ ہوں ان کو مسجد میں لانے کا اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ ان میں مسجد میں آنے کی اور نماز باجماعت پڑھنے کی عادت پیدا ہو، اسلام کےابتدائی دور سے اب تک ایسے بچے  بلانکیر مسجد میں آتے رہے ہیں۔

(3)   جو  بچے قریب البلوغ  نہ ہوں، لیکن ان  سے مسجد کے گندے ہونے کا  ڈر نہ ہو  اور  وہ   باشعور اور سمجھ دار ہوں ،   مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوں تو انہیں مسجد میں لانا بلا کراہت جائز ہے، بلکہ نماز کی عادت ڈالنے کے لیے انہیں مسجد میں لانا چاہیے، البتہ سرپرست کو ان کی نگرانی کرنی چاہیے ۔

(4)   جو   بچے  قریب  البلوغ  نہ  ہوں، اور   ان  سے مسجد کے گندے ہونے کا ڈر بھی نہ ہو، اور وہ تھوڑی بہت سمجھ رکھتے ہیں ، لیکن وہ باشعور اور سمجھ دار نہ ہوں، مسجد کے احترام کو  نہ جانتے ہوں  اور ان کے گھر والوں نے ان کی ایسی تربیت نہیں کی ہو کہ وہ مسجد میں شرارتوں سے باز آجائیں تو  ایسے بچوں کو مسجد میں لانا درست تو ہے، لیکن کراہت سے خالی نہیں، اس لیے بہتر یہ ہے ایسے بچوں کو بھی مسجد نہ لایا جائے؛ کیوں کہ ان کی شرارتوں سے مسجد کا ادب واحترام باقی نہیں رہے گا، دوسرے نمازیوں کی نماز میں بھی خلل آئے گا اور خود سرپرست کوبھی اطمینانِ قلب نہیں رہے گا۔

(5) وہ بچے جو تھوڑی بہت سمجھ  رکھتے ہیں اور  ان سے مسجد کی بے حرمتی اور  ناپاک ہونے کا قوی اندیشہ نہ ہو،  لیکن وہ باشعور اور سمجھ دار نہ ہوں،  البتہ  ان کے گھر والوں نے ان کی ایسی تربیت کی ہو کہ وہ مسجد کا احترام کرتے ہوں تو ان کو  بھی مسجد میں لانا منع نہیں ہے۔

عہدِ نبوی ﷺ  میں جہاں بچوں اور پاگلوں کو مسجد  سے  دور  رکھنے کا حکم دیا گیا، وہیں خود حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما  کا مسجد میں آنا اور نماز کے دوران آپ  ﷺ  کی کمر پر سوار ہوجانا بھی منقول ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  ہم آپ ﷺکے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ سجدہ میں تشریف لے گیے تو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ ﷺ کی کمر پر چڑھ گئے، پھر جب آپ ﷺ  سجدہ سے سرمبارک اٹھانے لگے تو انتہائی پیار سے آہستہ سے انہیں کمر سے ہٹا کر زمین پر رکھا ۔۔۔ الخ، اسی طرح آپ  ﷺ  کی نواسی حضرت امامہ بنت ابو العاص بھی نماز میں آپ ﷺ کے کندھے پر چڑھ جاتی تھیں، نیز ایک حدیث میں ہے  کہ : اللہ کے رسول ﷺ  کا ارشاد ہے کہ میں بسا اوقات  نماز میں بچوں کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو   نماز میں تخفیف کردیتا ہوں؛ تاکہ کہیں اس کی ماں پریشانی میں مبتلا نہ ہوجائے۔

ان  سب  روایات  سے  معلوم  ہوتا ہے کہ مطلقًا  بچوں کو مسجد میں لانا منع نہیں ہے؛ بلکہ ممانعت وہاں ہے  جہاں ان سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہو۔

اصلًا بچوں کو مسجد میں لانے سے متعلق بچوں کی پانچ اقسام کا ذکر ماقبل میں ہوا، باقی جہاں تک عمر کا تعلق ہے کہ کس عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا چاہیے تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے ، سات سال کے  بچے  اس قابل ہوجاتے ہیں کہ ان سے تلویث مسجد کا اندیشہ نہیں ہوتا اور والدین اگر ان کی تربیت کریں تو وہ مسجد کے احترام کو بھی سمجھنے  لگتے  ہیں۔

 اس کی تائید ایک اس سے ہوتی ہے کہ آپ  ﷺ  نے والدین کو  اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے سات سال کی عمر کے بچوں کو نماز کا حکم دیں، تاکہ ان میں نماز کی عادت پیدا ہو، جب کہ نماز کا مسجد سے رشتہ لازم ملزوم کا سا ہے،اور  نماز باجماعت کی تاکید کئی احادیث میں خود بیان ہوئی، جہاں  سات  سال  کی عمر میں بچوں کو نماز کی عادت ڈالنی چاہیے ، وہاں انہیں مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی بھی عادت ڈالنی چاہیے۔

دوسری تائید اس سے ہوتی ہے کہ فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد لڑکا سات  سال کی عمر تک والدہ  کی پرورش میں رہے گا، اور سات سال کے بعد والد اس کی پرورش کا حق دار ہوگا ، اس کی علت یہ ذکر کی ہے  کہ سات سال کی عمر تک عام طور پر  بچہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عورتوں سے مستغنی ہوجاتا ہے، خود کپڑے پہن  سکتا ہے، کھا، پی سکتا ہے،  خود استنجا  کرسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس عمر کے بچوں میں اس قدر شعور ہوتا ہے کہ اس سے تلویثِ مسجد کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

ہمارےمعاشرے میں ددنوں طرف بے اعتدالیاں ہیں، افراط اور تفریط سے بچتے ہوئے دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، والدین کو چاہیے کہ بالکل ناسمجھ بچوں کو مسجد نہ لائیں، اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ مسجد کے تقدس اور احترام کو سمجھ  سکیں، اور مسجد میں  لانے کے بعد بچوں کی نگرانی بھی کریں، اگر ایک آد بچہ ہو تو اس کے صف کے درمیان کھڑے ہونے کی بھی گنجائش ہے، اس لیے والد ، یا بڑا بھائی بچے کو اپنے ساتھ کھڑا کرے؛ تاکہ وہ شرارتیں نہ کریں۔ نیز دوسری طرف اگر بچہ کبھی شرارت کرلے تو دیگر نمازیوں کو چاہیے کہ وہ انہیں پیار ومحبت سے سمجھائیں، انہیں مسجد کی اہمیت دلائیں ، انہیں اس طرح نہ جھڑکیں کہ وہ مسجد آنا ہی بالکل چھوڑ دے،  بچوں سے شرارتوں کا وقوع فطری  ہے، اس لیے اسے نظر انداز کرکے حکمت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

موجودہ معاشرے میں چوں کہ مسجد میں بچوں کے لانے  پر بہت زور و شور سے رد ہونے لگا اور بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ بچے مسجد سے متنفر ہوگئے، اور بڑے ہوکر بھی نماز کے لیے آنے سے کترانے لگے تو  عرب ممالک میں مساجد میں اس قسم کے پوسٹر آویزاں ہونے لگے، اس کے بعد ہمارے  یہاں کی بعض مساجد  میں اس قسم کے پوسٹر اردو زبان میں لگائے گئے، لہذا مطلقًا اس کو رد نہیں کیا جاسکتا، اور چوں کہ یہ ایک پس منظر کے تناظر میں تھے؛ اس لیے اس کو حکمت سے خالی بھی نہیں کہا جاسکتا، البتہ  بچوں کو مسجد میں لانے کے حکم سے متعلق تفصیل وہی ہے جو ماقبل میں ذکر ہوئی، مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ قدرے وضاحت کے ساتھ پوسٹر آویزاں کرے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن واثلة بن الأسقع، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم، وشراءكم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع أصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على أبوابها المطاهر، وجمروها في الجمع»."

(1/ 247،  کتاب المساجدوالجماعات، باب ما یکرہ فی المساجد، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فيض القدير میں ہے:

"(جنبوا مساجدنا) وفي رواية مساجدكم (صبيانكم) أراد به هنا ما يشمل الذكور والإناث (ومجانينكم) فيكره إدخالهما تنزيها إن أمن تنجيسهم للمسجد وتحريما إن لم يؤمن."(3 / 351)

نيل الأوطار  میں ہے :

(وعن أبي هريرة قال: «كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره فإذا رفع رأسه أخذهما من خلفه أخذا رفيقا ووضعهما على الأرض، فإذا عاد عادا حتى قضى صلاته، ثم أقعد أحدهما على فخذيه، قال: فقمت إليه، فقلت: يا رسول الله أردهما فبرقت برقة، فقال لهما: الحقا بأمكما فمكث ضوؤها حتى دخلا» . رواه أحمد) . الحديث أخرجه أيضا ابن عساكر وفي إسناد أحمد كامل بن العلاء وفيه مقال معروف، وهو يدل على أن مثل هذا الفعل الذي وقع منه صلى الله عليه وسلم غير مفسد للصلاة.
وفيه التصريح بأن ذلك كان في الفريضة، وقد تقدم الكلام في شرح الحديث الذي قبل هذا.
وفيه جواز إدخال الصبيان المساجد. وقد أخرج الطبراني من حديث معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «جنبوا مساجدكم صبيانكم وخصوماتكم وحدودكم وشراءكم وبيعكم وجمروها يوم جمعكم واجعلوا على أبوابها مطاهركم» ولكن الراوي له عن معاذ مكحول وهو لم يسمع منه، وأخرج ابن ماجه من حديث واثلة بن الأسقع أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وشراءكم وبيعكم وخصوماتكم ورفع أصواتكم وإقامة حدودكم وسل سيوفكم واتخذوا على أبوابها المطاهر وجمروها في الجمع» وفي إسناده الحارث بن شهاب وهو ضعيف. وقد عارض هذين الحديثين الضعيفين حديث أمامة المتقدم وهو متفق عليه. وحديث الباب وحديث أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إني لأسمع بكاء الصبي وأنا في الصلاة فأخفف، مخافة أن تفتتن أمه» وهو متفق عليه فيجمع بين الأحاديث بحمل الأمر بالتجنيب على الندب كما قال العراقي في شرح الترمذي، أو بأنها تنزه المساجد عمن لا يؤمن حدثه فيها
." (2 / 144)

فتاوی شامی میں ہے:

" ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره

(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعًا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر. والمطاهر جمع مطهرة بكسر الميم، والفتح لغة: وهو كل إناء يتطهر به كما في المصباح، والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل."

(1/ 656،  کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ط: سعید)

تقریرات الرافعي علی الدر میں ہے:

" قول الشارح: وإلا فیکرہ أي حیث لم یبالوا بمراعات حق المسجد من مسح نخامۃ، أو تفل في المسجد، وإلا فإذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم المساجد بتعلم من ولیھم، فلاکراهة في دخولهم."

 (تقریرات رافعي علی الدر ۲؍۸۶)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل الصف."

(1/ 571، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ط: سعید)

"وفي الرافعي: قال الرحمتي وربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال؛ لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال."

  (تقریرات الرافعي علی الدر المختار ۲؍۷۳ زکریا)

فتاوی شامی میں ہے:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. و عند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى".

(3/566، باب الحضانۃ، ط:سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"(سوال  ۱۳۴) ہمارے  یہاں  بعض مصلی اپنے ساتھ چھوٹے بچوں  کو مسجد میں  لاتے ہیں  اور جماعت خانہ میں  بٹھاتے ہیں ، وہ بچے کبھی روتے ہیں ، کبھی شرارت کرتے ہیں  اور گاہے پیشاب بھی کردیتے ہیں ، ان کو کہا جاتا ہے کہ بچوں  کو اپنے ساتھ نہ لاؤ،  اس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے، مگر وہ نہیں  مانتے، ان کی سمجھ میں  آجائے ایسا جواب تحریر فرمائیں ۔ بینواتوجرو ا!

(الجواب)مسجد میں  چھوٹے بچوں  کو لانے کی اجازت نہیں  ، مسجد کاادب و احترام باقی نہ رہے گا اور لانے والے کو بھی اطمینانِ  قلب نہ رہے گا ،نماز میں  کھڑے ہوں  گے مگر خشوع وخضوع نہ ہوگا، بچوں  کی طرف دل لگارہے گا ،حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: "جنبوا مساجد کم صبیانکم و مجانینکم  ..."الخ  اپنی مسجدوں  کوبچوں  اور پاگلوں  سے بچاؤ۔"

(ابن ماجہ ص۵۵ باب مایکرہ فی المساجد)

اسی  لیے فقہاء رحمہم اللہ تحریر فرماتے ہیں  کہ مسجد میں  بچوں  کو داخل کرنا اگر اس سے مسجد کے نجس ہونے کا اندیشہ ہوتو حرام ہے، ورنہ مکروہ ہے ، الا شباہ والنظائر میں  ہے:

” ومنها حرمة إدخال الصبیان و المجانین حیث غلب تنجیسھم و إلا فیکرہ.“

(الأشباہ ص ۵۵۷ القول في أحکام المسجد)

ہاں !  اگر بچہ سمجھ دار ہو، نماز پڑھتا ہو، مسجد کے ادب و احترام کا پاس و لحاظ رکھتا ہوتو کوئی حرج نہیں  ہے، غالباً اسی بنا  پر سات برس کی قید حدیث میں  موجود ہے ۔  وہ نابالغ بچوں  کی صفت میں  کھڑا ہے ، اگر صرف ایک ہی بچہ ہوتو وہ بالغوں  کی صف میں  کھڑا ہو سکتا ہے ،مکروہ نہیں  ۔"

(9/120۔ ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں