بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسئلہ صرف مفتی بتائے یا عالم بھی بتا سکتا ہے؟


سوال

 مسئلہ بتانے کا حق کس کو ہوتاہے؟ کیا مسئلہ بتانے کے  لیے مفتی با سند ہونا ضروری ہے یا عالم بھی مسئلہ بتا سکتا ہے؟ یعنی سند یافتہ عالم مثلاً  میں الحمد للہ عالم ہوں کوئی سوال کرتا ہے تو میں کتابوں میں دیکھ کر یا آپ کے فتاویٰ یا دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ جواب میں ارسال کر دیتا ہوں، ایک صاحب نے اعتراض کیا آپ صرف  عالم ہیں مفتی نہیں ہیں؛ اس لیے  آپ اس طرح مسائل کیوں بتاتے ہیں ؟یہ تو مفتی کا حق ہوتا ہے؟

جواب

مسئلہ بتانا ایک بہت بڑی شرعی ذمہ داری،اور   انتہائی نازک وحساس کام ہے جس میں سائل کاسوال سمجھنا،اس کا مقصد پہچاننا اور اور اس کے زمانے ،مکان اور عرف کی واقفیت کے ساتھ  ساتھ ، ملتی جلتی جزئیات میں امتیاز اور جواب میں مفتٰی بہٖ قول اختیار کرنا ،ایسے  بہت  سے امور  ہیں جن کا ادراک  ممارسۃ اور مسلسل تجربے کا متقاضی ہے، اور ان امور کی انجام دہی کسی  مستند دارالافتاء  سے  وابستہ مفتی ہی  کرسکتاہے، اس  لیے کسی غیر مفتی عالم کے لیے مسائل بتانے  میں جرأت کرنا صحیح نہیں، غیر مفتی عالم  مسئلہ اس وقت بتائے جب کسی مستند کتاب میں دیکھا ہو یا کسی مستندمفتی صاحب سے مسئلہ معلوم کیا ہو یا  مستند مفتی یا دار الافتاء سے جواب کی تصدیق کرچکا ہو ۔ کسی سائل سے مسئلہ سن کر  کسی ادارے   کی ویب  سائٹ  سےمحض  جواب نقل کردینا بھی  مناسب نہیں  ہے ،اگر نقل کریں تو   سوال جواب دونوں  باحوالہ نقل کریں  اور   ساتھ  ہی سائل کو کسی مستند مفتی سے رجوع کا مشورہ بھی دیں، یا مسئلہ بتانے سے پہلے کسی مستند پختہ کار مفتی سے اس مسئلے کی تصدیق کروالیں کہ سائل کے اس سوال کے جواب میں فلاں  فتویٰ بطورِ جواب درست ہوگا یا نہیں ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں