بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مردوں کے لیے پیتل کی انگھوٹی پہننا / جس کارٹن میں قرآن مجید کے نسخے ہوں اس پر پیر رکھنے کی اجازت نہیں


سوال

1۔ مردوں کے لیے پیتل کی انگوٹھی پہنا کیسا ہے ؟

2۔ کاٹن میں پیک قرآن مجید کے نسخے جو گاڑیوں میں لوڈ ہوں، ان کارٹن پر  پیر  رکھ سکتے ہیں؟

جواب

1۔ مردوں  کے لیے ایک مثقال  (ساڑھے چار ماشہ یعنی 4 گرام 374 ملی گرام )سے کم وزن چاندی کی انگوٹھی  پہننا جائز ہے، چاندی کی  انگوٹھی کے علاوہ کسی قسم کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لیے جائز نہیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6 / 359) ط: سعيد:

"(ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر) وصحح السرخسي (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها؛ لما مر".

و في الرد:

"(قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب»، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم، وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولاتتمه مثقالاً»! فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام، فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني. والشبه محركًا: النحاس الأصفر، قاموس. وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجال والنساء".

صورتِ مسئولہ میں مرد و خواتین کے لیے پیتل کی انگوٹھی پہننا ممنوع ہے، اور جانتے بوجھتے ممنوع  کو اختیار کرنا گناہ ہے، لہذا  چاندی کی معتینہ مقدار کے علاوہ پیتل اور کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننے سے اجتناب ضروری ہے۔

2۔ قرآنِ مجید اللہ رب العزت کا کلام ہے، جس کا احترام ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، کتاب اللہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا جس سے اس کی تحقیر کا شائبہ بھی ہو، اس کی شرعاً اجازت نہیں، لہذا جس کارٹن میں قرآنی نسخے رکھے گئے ہوں، اس پر پیر رکھنے کی شرعاً اجازت نہیں، قرآنی نسخوں کے کارٹنوں کو لوڈ کرتے ہوئے مکمل احتیاط کرنا ضروری ہے۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال: ۔۔۔ ہمارے ایک ساتھی کا پرنٹنگ پریس ہے، جس میں قرآن شریف، قرآنی دعائیں اور دیگر دینی کتب چھپتی ہیں، ہر کتاب کا ہر صفحہ کئی ہاتھوں میں سے گزرتاہے، تمام دن کام ہوتاہے، اس لیے ورکروں کا ہر وقت باوضو رہنا دشوار ہوتاہے، نیز چھپنے کے بعد ان اوراق کو اسٹور روم میں تہہ بہ تہہ چھت تک رکھا جاتاہے، رکھنے اور اتارنے والے کو لازماً ان اوراق پر چڑھنا پڑتاہے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مجبوری کی وجہ سے بغیر وضو کے اوراق کو چھونا جائز ہے یا نہیں؟ اور ان اوراق پر چڑھ کر دوسرے اوراق رکھنا یا اتارنا جائز ہے یا نہیں جب کہ بعض اوقات یہ اوراق صرف قرآن شریف کے ہوتے ہیں؟

جواب: ۔۔۔۔۔۔ دوم یہ کہ چھپنے کے بعد قرآنِ پاک کے اوراق کو اسٹور میں تہہ بہ تہہ چھت تک رکھنے کے بعد ان ہی مقدس اوراق پر چڑھ کر دوسرے اوراق کو اتارنا یہ صریح بے حرمتی ہے، ایک مسلمان ایسا کام نہیں کرسکتا۔

لہٰذا قرآنِ پاک کے اوراق پر چڑھ کر دوسرے اوراق اتارنا شرعاً ناجائز ہے، ہاں البتہ قرآنی اوراق اتارنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک سیڑھی نما اسٹول رکھ لیا جائے، اور حد درجہ ادب و احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے اوراق اتارلیے جائیں۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد آصف رشید (22 ربیع الاول 1425ھ بمطابق 13 مئی 2004ء) الجواب صحیح: محمد عبدالقادر۔ الجواب صحیح: محمد عبدالمجید دین پوری

وفي الهندیة:

"رجل وضع رجله علی المصحف إن کان علی وجه الاستخفاف یکفر، وإلا فلا، کذا في الغرائب ... ولو کتب القرآن علی الحیطان والجدران ... بعضهم کرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، کذا في فتاوی قاضي خان. کتابة القرآن علی مایفترش ویبسط مکروهة، کذا في الغرائب". (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف ...، (5/322،323) ط: مکتبه حقانیه، پشاور)

وفیه:

"... لأن تعظیم القرآن والفقه واجب". (کتاب الکراهیة، الباب الرابع في الصلاة والتسبیح وقراءة القرآن ...، (5/316) ط: مکتبه حقانیه، پشاور)

فتاویٰ خانیہ میں ہے:

"بساط أو مصلی کتب علیه في النسج: "الملک لله" یکره استعماله أو بسطه والقعود علیه". (الفتاوی الخانیة علی هامش الفتاوی الهندیة، کتاب الحظر والاباحة، باب مایکره من الثیاب والحلي، فصل في التسبیح والتسلیم والصلاة علی النبي ﷺ، (3/424،425) ط: مکتبه حقانیه، پشاور) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں