بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مردوں کے لائیو بیانات سنانے کے لیے خواتین ہال میں اسکرین لگانا


سوال

اتوار 20 جنوری 2019 کو بہادرآباد کےگل بہارلان میں کراچی کےمعروف مدرسےکےجانب سےآن لائن مارکیٹنگ کےشرعی مسائل سےآگاہی کےلیے ایک سیمینار رکھا گیاتھا، اشتہارمیں خواتین کےباپردہ انتظام کابھی لکھاتھا، بہت سارےدین دارحضرات اپنی فیملی کےہم راہ پروگرام میں شریک ہوئے تھے، اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک خانقاہی محفل میں جہاں خواتین کےباپردہ انتظام کاذکرتھا بہت سارے اصلاح کےطالب اپنی فیملیز کےہم راہ مجلس میں شریک ہوئے، ہردوپروگراموں میں خواتین کےہال میں بڑی بڑی اسکرینیں لگی ہوئی تھیں جن پرگفتگو فرمانےوالےعلماءِ کرام ومشائخِعظام کادیداربھی ہو رہا تھا۔سوال یہ ہے کہ آیااسکرین پرغیرمحرم کی گفتگو عورت دیکھ اورسن سکتی ہے؟ اوراس طرح خواتین کےہال میں اسکرین لگانا تاکہ خواتین دیکھ اورسن سکیں جائزہے؟

جواب

جان دار کی تصاویر اور ویڈیو دکھانے، یا پروگرام کی کوریج کے لیے اسکرین لگانا جس میں جان دار کی تصاویر  ہوں ناجائز ہے۔

باقی جہاں تک عورت کا مرد کو دیکھنے کا حکم ہے تو  اگر عورت کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو تو وہ ضرورت کے لیے مرد کو  (اعضاءِ مستورہ کے علاوہ) دیکھ سکتی ہے، تاہم فتنے کا اندیشہ ہو تو عورت کے لیے بھی مرد کو دیکھنا جائز نہیں ہے، موجودہ فتنہ کے زمانے میں سدِ ذریعہ کے طور پر  براہِ راست مردوں کے بیانات سننے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی، بلکہ اگر ضرورت ہو تو بیانات اور اصلاحی پروگرام کے لیے پردہ کے انتظام کے ساتھ صرف صوتی ریکارڈنگ یا اسپیکر کے ذریعہ بیان سنانے کا انتظام کیا جائے۔الغرض عورتوں کے لیے  مردوں کی اسکرین لگانا، تاکہ وہ مردوں کو دیکھ سکیں جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 327):
"فنقول: نظر المرأة إلى الرجل الأجنبي كنظر الرجل إلى الرجل تنظر إلى جميع جسده إلا ما بين سرته حتى يجاوز ركبته، وما ذكرنا من الجواب فيما إذا كانت المرأة تعلم قطعاً ويقيناً أنها لو نظرت إلى بعض ما ذكرنا من الرجل لايقع في قلبها شهوة، وأما إذا علمت أنه تقع في قلبها شهوة أو شكت ومعنى الشك استواء الظنين فأحب إلي أن تغض بصرها منه، هكذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل، فقد ذكر الاستحسان فيما إذا كان الناظر إلى الرجل الأجنبي هو المرأة وفيما إذا كان الناظر إلى المرأة الأجنبية هو الرجل قال: فليجتنب بجهده، وهو دليل الحرمة، وهو الصحيح في الفصلين جميعاً". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں