بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کا اپنی بھابھی سے ” اگر میں بھی اسی طرح تمھیں گالیاں دے کر اپنے گھر سے نہ نکالوں تو مجھ پہ بیوی طلاق“ کہنا/ تعلیق غیر متعین کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہورہا تھا، اس دوران دیور، ان کے گھر آیا،  بھابھی نے اسے برا بھلا کہہ کر نکال دیا اپنے گھر سے، دیور نے بھابھی کو کہا : ” اگر میں بھی اسی طرح تمھیں گالیاں دے کر اپنے گھر سے نہ نکالوں تو مجھ پہ بیوی طلاق“  اب اس مسئلہ کا کیا حل ہے کہ طلاق واقع نہ ہو ؟ نیز دیور کی غیرموجودگی میں اس کی بھابھی اس کی بیوی کے پاس بھی آتی رہتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق کو اگر کسی شرط پر معلق کیا جائے تو شرط کے پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور اگر اس شرط کو مطلق رکھا جائے یعنی اس میں وقت کی تعیین نہ ہو اور اس کو  کسی چیز  کے ساتھ مقید نہ کیا جائے اور نہ ہی وہ  ناممکن چیز ہو تو  اس وقت اس کا وقوع ہوتا ہے  جب  قسم کھانے والا اس شرط پر عمل کرنے سے عاجز ہوجائے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب دیور نے بھابھی کو  یہ کہا: ” اگر میں بھی اسی طرح تمھیں گالیاں دے کر اپنے گھر سے نہ نکالوں تو مجھ پہ بیوی طلاق“  تو یہ طلاق کی تعلیق ہوگئی  ہے، اب اگر دیور  نے  اپنی موت تک اس طرح نہیں کیا تو اس کی موت کے وقت اس کی بیوی پر  ایک طلاق واقع ہوجائے گی، موت سے پہلے ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

البحر الرائق  (4 / 338):
" كل فعل حلف أنه يفعله في المستقبل، وأطلقه، ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما فلذا قال في غاية البيان، وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث. اهـ".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 349):
"بخلاف ما إذا كان شرط الحنث أمرا عدميا، مثل: إن لم أكلم زيدا أو إن لم أدخل فإنها لاتبطل بفوت المحل بل يتحقق به الحنث لليأس من شرط البر وهذا إذا لم يكن شرط البر مستحيلا، وإلا فهو مسألة الكوز، وقد علمت ما فيها من التفصيل، وليس منها قوله لأصعدن السماء، فإن اليمين فيها منعقدة ويحنث عقبها لأن صعود السماء أمر ممكن".

المبسوط للسرخسي (9 / 8):
"ولو حلف بطلاق امرأته ليأتين البصرة فمات قبل ذلك طلقت عند الموت؛ لأن بموته فات شرط البر وهو إتيان البصرة، ولا نقول: إنه يحنث بعد موته ولكنه كما أشرف على الموت وتحقق عجزه عن إتيان البصرة حنث حتى إن كان لم يدخل بها فلا ميراث لها ولا عدة عليها، وإن كان قد دخل بها فلها الميراث وعليها العدة وتعتد إلى أبعد الأجلين بمنزلة امرأة الفار، فإن ماتت هي وهو حي لم تطلق؛ لأنه قادر على إتيان البصرة بعد موتها فلم يتحقق شرط الحنث بموتها.
ولو حلف بطلاق امرأته إن لم تأت البصرة هي فماتت فلا ميراث للزوج؛ لأنها لما أشرفت على الموت فقد تحقق عجزها عن إتيان البصرة فتطلق ثلاثا قبل موتها، ولو مات الزوج كان لها الميراث؛ لأنها تقدر على إتيان البصرة بعد موته". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں