بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم نے ترکہ میں سیونگ سرٹیفیکیٹ چھوڑے


سوال

میرے والد محترم کا انتقال اسی سال 19 جنوری کو ہوا،  امی سے طلاق کے بعد وہ الگ اکیلے رہا کرتے تھے اپنے ذاتی گھر میں،  شروع وقتوں میں پاپا نے ہم سے رابطہ رکھا، ملنے آجاتے تھے،  ہم چلے جاتے تھے،  میں اور میرا بھائی بس ہم دو ہی اولاد ہیں ان کی۔ پھر کچھ عرصہ پہلے پاپا سے کسی بات کے اختلاف پر ہم نے پاپا سے رابطہ کافی کم کردیا، سال میں کبھی خبر لے لیا کرتے تھے، 3 سال گزر گئے، ہم فاصلوں سے ملتے، پاپا کے گھر پر کچھ غلط قسم کے کرائے داروں نے قبضہ کر لیا، پاپا کو گھر آدھی قیمت پر بیچ کر جان چھڑانی پڑی، پاپا اپنی بنائی ہوئی بہن کے گھر رہنے لگے، دو سال رہے، پھر پاپا کا ابھی انتقال ہوا تو ہمیں انتقال والے دن بتایا، ان کے کچھ سیونگ سرٹیفیکیٹ بینک میں تھے، جن کے نامزد  افراد میں میں،  میرا بھائی اور والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی ہے۔ کل رقم 7 لاکھ تھی جس میں سے والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی کے شوہر  نے ڈیڑھ  لاکھ  ہم سے پاپا کے پیسوں میں سے مانگے کہ پاپا کا کفن دفن اسپتال کا خرچہ اور موت کے دن کا کھانا تیجہ کا کھانا کیا۔ ہم دونوں بہن بھائی نے خاموشی سے یہ سوچ کے ادا کردیے بینک کے مطابق ہماری رقوم کچھ اس طرح سے ترتیب میں آئیں۔ میرے  471000، میرے بھائی کے 221000  اور   والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی کے 120000، تو محترم علماءِ کرام ،ہمارے  لیے کیا واجب تھا ؟ کیا حکم تھا ہمارے  لیے شریعت کی رو سے؟ تقسیم کیسے  ہونی چاہیے تھی؟ قرض کوئی نہیں تھا میرے پاپا کا، کیا پاپا کے پیسوں سے تیجہ اور پہلے دن کا کھاناہونا چاہیے تھا؟ اب بھی والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی کے شوہر کا تقاضا  ہے پیسوں کا کہ میرے پاپا کے نام سے مسجد میں بورنگ کروائے گا۔ مجھے بتائیے کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ میں شامل تمام سودی اموال سیونگ سرٹیفکیٹس کی سودی رقم ورثاء کے لیے اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں ہے، لہذا اگر سودی رقم متعلقہ ادارے  کو  لوٹائی جاسکتی ہو تو سودی رقم ان کو واپس کردی جائے، اور اصل رقم ورثاء میں ان کے حصصِ شرعیہ کے اعتبار سے یعنی فی بیٹا دو حصے اور فی بیٹی ایک حصہ کر کے تقسیم کردیا جائے، اور اگر سودی رقم واپس کرنا ممکن نہ ہو تو مذکورہ تمام سودی رقم ثواب کی نیت کے بغیر مستحقِ زکات افراد پر صدقہ کر کے اصل رقم ورثاء میں تقسیم کر دی جائے۔

نیز  والد مرحوم نے منہ بولی بہن کی بیٹی کو  چوں کہ نامزد کیا ہے تو یہ ان کی جانب سے وصیت شمار ہوگی، لہذا اگر مرحوم والد کی طرف سے کوثر بانو کے لیے مقررہ رقم سیونگ سرٹیفیکیٹس کی اصل رقم کا ایک تہائی یا اس کے اندر اندر ہے تو وہ پوری رقم والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی کو  ملے  گی، اور اگر والد  کی بیان کردہ رقم سرٹیفیکیٹس کی اصل رقم کی ایک تہائی سے زیادہ ہے تو  والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی کو صرف ایک تہائی رقم ہی ملے گی، اس سے زیادہ نہیں، اور بقیہ کل اصل رقم  مرحوم کے اصل وارث بیٹے اور بیٹی میں  ایک اور آدھے کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔

مرحوم کے کفن دفن کا انتظام ان کے ترکہ سے کرنا درست عمل تھا،  تاہم پہلے دن کے کھانے اور  تیجہ و غیرہ کا انتظام ان کے ترکہ سے کرنا درست نہ تھا،  پس اگر اصل  وارثوں نے اپنی رضامندی سے ان کے ترکہ سے یہ خرچہ کردیا تو  اب وہ  والد کی منہ بولی بہن کی بیٹی کے شوہر سے اس کا مطالبہ نہیں کرسکتے، تاہم تیجہ چوں کہ بدعت ہے، اس کا انتظام کرنے پر توبہ کرنا ضروری ہوگا۔

مرحوم کی طرف سے مسجد میں بورنگ کروانا ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے، تاہم ورثاء پر لازم نہیں، اگر وہ اپنے خوشی سے ایسا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لہٰذا والد کی منہ بولی بیٹی کے شوہر  کو  انہیں مجبور کرنے کا حق نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں