بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتہن کا مرہون سے انتفاع


سوال

ایک آدمی نے اپنی زمین دوسرے آدمی کو دے دی اور اس سے اس زمین پر ایڈوانس دولا کھ روپے لے لیے، اور اس سے کہا کہ آپ میری اس زمین کو استعمال کریں جب تک میں آپ کے پیسے واپس نہ کردوں۔  نیز  یہ بھی بتائیں کہ اس طرح کے مسئلے کی دیگر صورتوں میں جواز و صحت کی کوئی صورت ہے کہ نہیں؟  اگر ہے تو  اس سے بھی ہمیں مطلع فرمائیں!

جواب

واپس کرنے کی شرط پر رقم لینا  ’’قرض‘‘  ہے اور واپسی یقینی بنانے کے لیے بطورِ  ضمانت قرض دینے والے کو اپنی زمین دینا ’’رہن‘‘  رکھوانا ہے، اور نفسِ ’’رہن‘‘رکھوانا شرعاً جائز ہے، لیکن مرتہن(جس کے پاس رہن رکھوایا گیا ہے) کے لیے مرہونہ شے (چیز) کو اپنے استعمال میں لانا اور اس سے کمائی کرنا شرعاً جائز نہیں،  اگرچہ راہن اجازت دے چکا ہو۔ 

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (5 / 166):
" قال في المنح هناك: وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة، وما في المعتبرات على الحكم ، ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً، وتعقبه الحموي بأن ما كان رباً لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد أن الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح ، قلت: وما في الجواهر يفيد توفيقاً آخر يحمل ما في المعتبرات على غير المشروط وما مر على المشروط، وهو أولى من إبقاء التنافي ويؤيده ما ذكروه فيما لو أهدى المستقرض للمقرض إن كانت بشرط كره وإلا فلا، وأفتى في الخيرية فيمن رهن شجر الزيتون على أن يأكل المرتهن ثمرته نظير صبره بالدين بأنه يضمن". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں