بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مذی کے قطروں سے بچاؤ ممکن نہ ہوتو طہارت کا طریقہ


سوال

چلتے پھرتے اچانک کسی بھی چیز  کی شہوت میں مبتلا ہو جانا گناہ ہے؟ جس پر کنٹرول نہ ہو؟ اور ایک با عمل شخص جس میں تقویٰ ہو  پر شہوت ایسی ہو کہ کسی بھی وقت جنسی خیال سے مذی آنا شروع ہو جاۓ، ایسی صورت میں کپڑوں کی پاکی کے کیا احکامات ہیں؟  سرِ راہ تبدیل تو نہیں کیے جا سکتے تو وہ ناپاک ہوں گے؟  ان کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے جب کہ مذی کی جگہ کی نشان دہی ممکن نہیں ہوتی۔

جواب

مذی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، البتہ مذی کے قطرے کپڑوں یا جسم کو لگ جائیں تو  کپڑے  اور جسم کی وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے، پورے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے۔ اگر قطرے درہم کے برابر لگیں تو  ان میں نماز مکروہِ تحریمی ہوگی، اگر اس سے زائد لگیں تو نماز ہی نہیں ہوگی، اگر ایک درہم سے کم ہوں اور اس کے ساتھ نماز ادا کرلی تو کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔ بہرحال کپڑے یا جسم کے جس حصے پر مذی کے قطرے لگیں صرف اسی کو دھو کر پاک کرنا کافی ہوگا، کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر قطرے سوکھ جانے کی وجہ سے جگہ کا تعین نہ ہوسکے تو شلوار وغیرہ کے جس حصے کے بارے میں اندازا ہو کہ اتنے حصے میں قطرے لگے ہوں گے اسے اور اس کے ارد گرد مزید کچھ حصے کو دھولیا جائے۔

بہتر صورت یہ ہے آپ انڈروئیر کا استعمال کریں ، اور استنجا کرنے کے بعد انڈروئیر میں ٹشو وغیرہ رکھ لیں ؛ تاکہ اگر قطرہ آئے وہ ٹشو پر لگے، بعد ازاں جب نماز کا وقت ہوتو وہ ٹشو نکال کر پھینک دیں اور وضو کرکے نماز ادا کرلیں، اس سے آسانی ہوجائے گی۔ 

"وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولايعقبه فتور، وربما لايحس بخروجه، وهو أغلب في النساء من الرجال. وفي بعض الشروح: أن ما يخرج من المرأة عند الشهوة يسمى القذى بمفتوحتين، والودي بإسكان الدال المهملة وتخفيف الياء، ولايجوز عند جمهور أهل اللغة غير هذا، وحكى الجوهري في الصحاح عن الأموي أنه قال: بتشديد الياء، وحكى صاحب مطالع الأنوار لغةً أنه بالذال المعجمة، وهذان شاذان، يقال: ودى بتخفيف الدال، وأودى وودى بالتشديد، والأول أفصح، وهو ماء أبيض كدر ثخين يشبه المني في الثخانة ويخالفه في الكدورة ولا رائحة له، ويخرج عقيب البول إذا كانت الطبيعة مستمسكةً وعند حمل شيء ثقيل ويخرج قطرة أو قطرتين ونحوهما، وأجمع العلماء أنه لايجب الغسل بخروج المذي والودي، كذا في شرح المهذب". (1/235)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں